تعلیم کے شعبےمیں ہنگامی بنیادوں پر اصلاحات لانے کی ضرورت ہے اور حکومت اپنے طور پر ملک میں تعلیمی اور اساتذہ کا معیارِ زندگی بہتر بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔
ان خیالات کا اظہار وزیراعظم پاکستان کی مشیرشہناز وزیر علی نے ’وائس آف امریکہ‘ کے ریڈیو پروگرام راونڈ ٹیبل میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ یہ کہنا درست نہ ہو گا کہ موجودہ حکومت نے تعلیم کے شعبے میں موجود تمام مسائل حل کر دیے ہیں مگر اس بات سے بھی انکار نہیں کہ حکومت نے اپنے حالات کے مطابق کئی ایک اقدامات کیے ہیں جن میں اساتذہ کی تنخواہوں میں غیرمعمولی اضافہ، سکولوں کی حالت بہتر بنانا، ناقص سکولوں کا خاتمہ اور اساتذہ کی میرٹ پر تقرریاں شامل ہیں۔
اس مجلس مذاکرہ میں اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ پاکستان کے اندر انسانی ترقی اور معاشی طور پر خوشحال معاشرے میں اساتذہ کا کیا کردار ہو سکتا ہے خاص طور پر ایسے وقت میں جب عالمی اقتصادی بحران کے بعد اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون اور امریکہ کے صدر براک اوباما جیسے عالمی راہنما عصر حاضر میں دنیا بھر میں انسانی ترقی اور سماجی بہتری کے لیے اساتذہ کے کردار کو بےاحد اہم قرار دے رہے ہیں۔
شہناز وزیر علی نے بتایا کہ پرائمری سطح پر استاد کی تنخواہ 25 سے 30 ہزار کر دی گئی ہے اور نظام ِتعلیم میں بہتری کے لیے اساتذہ کی تربیت پر بھی توجہ دی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام صوبوں سے ’’گھوسٹ سکول‘‘ ختم کر دیے گئے ہیں۔ تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ ابھی بہت مسائل موجود ہیں جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اساتذہ پر بھی زور دیا کہ وہ بنیادی سطح پر طلبا کی راہنمائی کی ذمہ داری لیں اور پوسٹ گریجوایٹ یہاں تک کہ پی ایچ ڈی اساتذہ کو پرائمری سطح پر خدمات پیش کرنی چاہئیں اور گاوںمیں بھی خدمات انجام دینے میں انہیں پس وپیش سے کام نہیں لینا چاہیئے۔
مجلس مذاکرہ کے شرکا میں ممتاز ماہر تعلیم اور اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی کے ریکٹر فتح محمد ملک، قائد اعظم یونیورسٹی میں جینڈرسٹڈی پروگرام کی سربراہ فوزیہ باری اور وفاقی تعلیمی شعبے کے جوائنٹ سیکریٹری اور ماہر تعلیم رفیق طاہر نے شرکت کی۔ ماہرین نے تسلیم کیا کہ محض ڈاکٹر اور انجنئیر پیدا کرنے سے ذمہ داری پوری نہیں ہو جاتی انہیں تمام شعبوں کے لیے بہترین افراد تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ملک میں جاری عسکریت پسندی اور بظاہر عدم برداشت کےعنصر کے خاتمے کے لیے بھی اساتذہ کے کردار پر زور دیا اور کہا کہ مسائل کی گھمبیرتا میں جس قدر فکری راہنمائی کی ضرورت آج ہے، شاید پہلے نہ تھی۔
تفصیل کےلیےآڈیو رپورٹ سنیئے: