پاکستان کے الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75 ڈسکہ میں گزشتہ ہفتے ہونے والے ضمنی انتخاب کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے جمعرات کو اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ ڈسکہ کا ضمنی انتخاب "شفاف اور منصفانہ" نہیں تھا۔ کمیشن نے حلقے کے تمام پولنگ اسٹیشنز پر 18 مارچ کو دوبارہ پولنگ کرانے کا حکم دیا ہے۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے ضمنی انتخاب سے متعلق اپنے مختصر فیصلے میں کہا کہ 19 فروری کو ضمنی انتخاب میں لڑائی جھگڑے اور تشدد کے واقعات رونما ہوئے اور ووٹرز کو حقِ رائے دہی کے لیے آزادانہ ماحول فراہم نہیں کیا گیا۔
الیکشن کمیشن کے مطابق الیکشن ایکٹ کی شق 9 کے تحت الیکشن کو کالعدم قرار دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں بدنظمی کے واقعات رپورٹ ہوئے تھے جب کہ فائرنگ کے واقعے میں دو افراد ہلاک بھی ہوئے تھے۔ الیکشن کمیشن نے 20 پولنگ اسٹیشنز کے نتائج تاخیر سے ملنے پر حلقے کا نتیجہ روک لیا تھا۔
SEE ALSO: ضمنی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات، کس جماعت نے کیا کھویا کیا پایا؟جمعرات کو سماعت کے دوران کس نے کیا کہا؟
سماعت میں تحریکِ انصاف کے اس حلقے سے امیدوار علی اسجد ملہی نے اپنے نئے وکیل علی ظفر ایڈوکیٹ کے ذریعے مؤقف پیش کیا کہ فائرنگ ہر الیکشن میں ہوتی ہے اس لیے شکایت نہیں کی۔
علی اسجد ملہی کا کہنا تھا کہ ہر علاقے کے ووٹرز کی مرضی ہے ووٹ ڈالیں یا نہ ڈالیں۔ حلقے میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگی ہوئی نہ خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ووٹر پر منحصر ہے کہ ووٹ ڈالنے آئے یا نہ آئے اس وجہ سے کسی پولنگ اسٹیشن پر ووٹنگ کی شرح کم ہونے پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کمیشن سے این اے 75 کا انتخابی نتیجہ جاری کرنے کی استدعا کی۔
(ن) لیگ کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے متنازع 20 پولنگ اسٹیشنز کے ووٹوں کا فرانزک آڈٹ کرانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ بقول ان کے پورے حلقے میں فائرنگ ہوئی۔ فائرنگ کرنے والا جو بھی ہو ووٹرز ہراساں ہوئے۔
اس موقع پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ عام انتخابات میں بھی فارم 45 کا مسئلہ سامنے آیا تھا۔ تاہم ضمنی انتخابات میں الیکشن کمیشن کو فارم 45 نہ ملنے کی شکایت نہیں آئی۔ اس کے بعد چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے حلقہ این اے 75 ڈسکہ سے متعلق سماعت پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا کہ پورے حلقے میں دوبارہ الیکشن کرائے جائیں۔
سیاسی جماعتوں کا ردِعمل
جمعرات کو الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخاب کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے اعلان کے بعد وفاقی وزیرِ اطلاعات شبلی فراز نے اپنے ردِ عمل میں کہا کہ جب تفصیلی فیصلہ آئے گا تو اسے دیکھ کر پاکستان تحریکِ انصاف آئندہ کا لائحۂ عمل طے کرے گی۔
الیکشن کمیشن کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف کی حکومت نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ اداروں کو سیاست سے آزاد کیا جائے گا اور ان کے بقول اس پر انہیں آج فخر ہے۔
رواں ماہ 19 فروری کو سیالکوٹ کے حلقہ این اے 75 ڈسکہ میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں پرتشدد واقعات ہوئے، فائرنگ کے ایک واقعے میں 2 افراد ہلاک اور متعدد زخمی بھی ہوئے تھے، جب کہ 20 پریزائیڈنگ افسران پولنگ بیگز کے ہمراہ مبینہ طور پر لاپتا ہو گئے، جو اگلے روز صبح 6 بجے آر او دفتر پہنچے تھے۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ "ڈسکہ کے عوام کا شکریہ جنہوں نے نہ صرف ووٹ دیا بلکہ بقول ان کے ووٹ پر پہرا بھی دیا۔"
واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) 20 پولنگ اسٹیشنز کے نتائج تاخیر سے ملنے پر حلقے میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات عائد کیے تھے اور الیکشن کمیشن سے پورے حلقے میں دوبارہ انتخاب کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔
اس کے برعکس وزیرِ اعظم عمران خان نے تحریکِ انصاف کے ذمہ داران کو ہدایت کی تھی کہ وہ الیکشن کمیشن کو حلقے کے 20 پولنگ اسٹیشنز میں دوبارہ پولنگ کی درخواست دیں جن کے نتائح تاخیر کا شکار ہوئے تھے۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد زبیر نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو تاریخی قرار دیا ہے۔
افسران کے تبادلے
دوسری جانب الیکشن کمیشن نے ڈسکہ انتخاب کے معاملے پر چیف سیکرٹری پنجاب اور آئی جی پنجاب کو فرائض سے غفلت برتنے پر چار مارچ کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے کمشنر گوجرانوالہ ڈویژن اور آر پی او گوجرانوالہ رینج کو ان کے موجودہ عہدوں سے تبدیل کر کے گوجوانوالہ ڈویژن سے باہر بھیجنے کی ہدایت کی ہے۔
الیکشن کمیشن نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ہدایت کی ہے کہ ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ، ڈی پی او سیالکوٹ اور اسسٹنٹ کمشنر ڈسکہ کو معطل کیا جائے۔
الیکشن کمیشن نے وفاقی اور پنجاب حکومت کو حکم دیا ہے کہ ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ جاوید لاشاری، ڈی پی او سیالکوٹ حسن اسد علوی، اے سی ڈسکہ آصف حسین، ڈی ایس پی سمبڑیال ذوالفقار ورک اور ڈی ایس پی ڈسکہ محمد رمضان کمبوہ کو معطل کیا جائے اور ان کو آئندہ کسی الیکشن ڈیوٹی پر تعینات نہ کیا جائے۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ ان تمام افسران کے خلاف الیکشن کمیشن خود انکوائری کرے گا یا وفاقی حکومت یا صوبائی حکومت کو انکوائری کرنے کا حکم دے گا جس کا فیصلہ بعد میں ہو گا۔
ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں ہوا کیا تھا؟
پاکستان میں حال ہی میں ہونے والے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات میں ڈسکہ کا انتخابی حلقہ سب سے زیادہ موضوعِ بحث رہا تھا۔
اس حلقے میں اصل مقابلہ حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف اور حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے درمیان تھا۔ یہ نشست مسلم لیگ (ن) کے رکنِ اسمبلی سید افتخار الحسن شاہ کے انتقال کی وجہ سے خالی ہوئی تھی۔
انیس فروری کو پولنگ کے بعد حلقے میں 20 پریزائیڈنگ افسران کے مبینہ طور پر پوری رات غائب رہنے اور دیگر پولنگ اسٹیشنز میں 30 سے 35 فی صد جب کہ ان 20 پولنگ اسٹیشنز پر 85 فی صد ووٹنگ ٹرن آؤٹ ظاہر ہونے کے بعد دونوں بڑی جماعتوں نے ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات عائد کیے تھے جس کے بعد الیکشن کمیشن نے حلقے کے ضمنی انتخاب کا نتیجہ روک لیا تھا۔