پاکستان میں چند روز قبل ہونے والے ضمنی الیکشن میں دھاندلی کے الزامات اور پولنگ عملے کے غائب ہونے پر بحث کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ڈسکہ میں ہونے والے واقعات الیکشن کمیشن کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں اور اسے اس بارے میں سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں ضمنی انتخابات کے دوران ملک کی سیاسی جماعتوں نے بھرپور حصہ لیا اور بیشتر نشستوں پر وہی نتائج سامنے آئے جن کی توقع کی جا رہی تھی۔ البتہ بعض جگہوں پر اپ سیٹ بھی دیکھنے میں آیا جن میں خیبرپختونخوا کے شہر نوشہرہ کی صوبائی نشست کا سب سے زیادہ تذکرہ کیا جا رہا ہے۔
اس نشست پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اختیار ولی نے حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے میاں عمر کاکا خیل کو شکست دی۔ اس حلقے میں وزیرِ دفاع پرویز خٹک کے بھائی لیاقت خٹک کی اپنے امیدوار کی مخالفت اس الیکشن میں ہار کی بڑی وجہ بتائی جا رہی ہے جس کی وجہ سے انہیں صوبائی وزارت سے بھی فارغ کر دیا گیا ہے۔
این اے 45 کرم کی نشست جہاں پہلے جمعیت علمائے اسلام (ف) کامیاب ہوئی تھی اب پی ٹی آئی نے یہاں میدان مار لیا۔ پی ٹی آئی کے امیدوار نے جے یو آئی کے امیدوار کو بہت کم فرق سے ہرایا ہے، اس الیکشن پر بھی جے یو آئی نے احتجاج اور عدالتوں سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ان انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو پنجاب میں (ن) لیگ کے ووٹ بینک میں کمی دیکھنے میں آئی اور ماضی کے مقابلے میں بہت کم مارجن سے انہیں کامیابی ملی۔
اس بارے میں تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ان حلقوں میں ماضی میں تین سے چار مضبوط امیدوار اور سیاسی جماعتیں موجود ہوتی تھیں۔ لیکن اس بار اس الیکشن میں ون آن ون انتخاب ہوا جس کا فائدہ پاکستان تحریکِ انصاف نے اٹھایا۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیرِ آباد میں بھی مقامی امیدوار کو ٹکٹ دینے اور دیگر آزاد امیدواروں کو ملانے سے پی ٹی آئی کے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مقابلے میں مارجن میں کمی آئی ہے۔
اُں کے بقول سندھ میں پیپلز پارٹی نے بھی اپنی نشستیں دوبارہ جیت تو لیں لیکن ان کے ووٹ بینک میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
پی ٹی آئی کے ووٹ بینک کے حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ ماضی میں حکمران جماعت ہی ضمنی انتخاب جیتا کرتی تھی۔ لیکن شفاف الیکشن کرواتے ہوئے پی ٹی آئی نے اس الیکشن میں اپنے ووٹ بینک میں اضافہ کیا ہے۔
شبلی فراز کا کہنا تھا کہ "اگر ہمارے ووٹ دیکھے جائیں تو وہ ماضی کے مقابلے میں بہتر ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ مہنگائی ہے لیکن پاکستان کے عوام نے ملک کے مستقبل کی خاطر ہمیں ووٹ دیا ہے۔"
ڈسکہ میں کیا ہوا، کیوں ہوا؟
پاکستان میں حالیہ انتخاب میں ڈسکہ کا انتخابی حلقہ سب سے زیادہ موضوع بحث ہے۔ اس حلقے میں 20 پریزائیڈنگ افسران کا پوری رات غائب رہنا اور دیگر پولنگ اسٹیشنز میں 30 سے 35 فی صد اور ان 20 پولنگ اسٹیشنز پر 85 فی صد ووٹ ٹرن آؤٹ کے بعد کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ انتظامی افسران اور پولیس پر بھی الزامات لگائے جا رہے ہیں کہ انہوں نے حکمران جماعت کے امیدوار کی مدد کی۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ڈسکہ میں پریزائیڈنگ افسران کا غائب ہونا اور 20 پولنگ اسٹیشنز پر انتخاب کا متنازع ہونا الیکشن کمیشن آف پاکستان کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔
پاکستان میں جمہوری اقدار اور قانون سازی کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'پلڈاٹ' کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ پارٹیاں ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتی رہتی ہیں۔ لیکن الیکشن کمیشن کو اپنی رٹ قائم رکھنے اور شفاف الیکشن کے لیے ضروری ہے کہ ان افراد کے خلاف سخت ایکشن لے جنہوں نے اس الیکشن کو مشکوک بنایا تاکہ آئندہ کے لیے ایک مضبوط روایت قائم ہو۔
ایک سوال کے جواب میں احمد بلال محبوب نے کہا کہ "اس الیکشن میں عام روایت کے مطابق ہی نتائج سامنے آئے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ پاکستان تحریکِ انصاف کو اس الیکشن سے کچھ زیادہ نقصان ہوا ہے۔"
اُن کے بقول نوشہرہ میں شکست دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی اوپن بیلٹ کے ذریعے انتخاب کیوں کروانا چاہتی ہے۔ ان کے اندرونی اختلاف سینیٹ انتخاب میں بھی اپ سیٹ کر سکتے ہیں اس لیے پی ٹی آئی اوپن بیلٹ کے ذریعے انتخاب کروانا چاہتی ہے۔
تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے ووٹ بینک کو نقصان نہیں ہوا بلکہ (ن) لیگ کے ووٹ بینک میں کچھ کمی آئی ہے لیکن ضمنی انتخابات میں ووٹ کم کاسٹ ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
ڈسکہ کے انتخابی نتائج کے بارے میں سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ اس حلقے میں جو کچھ ہوا اس نے پورے الیکشن کو مشکوک بنا دیا ہے۔
اُن کے بقول "میرے خیال میں پورے حلقے میں ری پول ہونا چاہیے کیوں کہ اب تک کے نتائج کے مطابق ان 23 پولنگ اسٹیشنز پر 85 فی صد پولنگ ہوئی۔ اگر ایسا ہوا ہے تو باقی شہر کے پولنگ اسٹیشنز میں کم پولنگ کیوں ہوئی۔ لہذا بہتر ہے کہ پورے حلقے میں ری پول کروا دیا جائے۔"
الیکشن کمیشن کی کارروائی
دوسری جانب این اے 75 سیالکوٹ ڈسکہ کے ضمنی الیکشن کے معاملے پر چیف الیکشن کمشنر نے ڈی آر او، ریٹرننگ افسر کو منگل کو اسلام آباد طلب کر لیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر ضمنی الیکشن کے نتائج سے متعلق معاملے کی سماعت کریں گے۔
الیکشن کمشنر پنجاب کا کہنا ہے کہ ریٹرننگ افسر کی تحقیقاتی رپورٹ سیل شدہ لفافے میں چیف الیکشن کمشنر کو بھجوا دی ہے۔ اس حلقے میں ہوئے ضمنی الیکشن میں سوال کیا جا رہا ہے کہ پریزائیڈنگ افسران دھند کہ وجہ سے نہیں پہنچ سکے تو ایسے میں پولیس کے حفاظتی دستے کہاں تھے۔ کیا وجہ تھی کہ موبائل فون پر کوئی رابطہ نہ کر سکا۔