سونیا اور راہل گاندھی منی لانڈرنگ کیس میں طلب، کانگریس کا انتقامی کارروائی کا الزام

فائل فوٹو

بھارت کے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے حزبِ اختلاف کی بڑی جماعت کانگریس کی صدر سونیا گاندھی اور سابق صدر راہل گاندھی کو مبینہ بدعنوانی کے ایک کیس میں سمن جاری کیے ہیں۔ سونیا گاندھی کو آٹھ جون اور راہل گاندھی کو دو جون کو طلب کیا گیا ہے۔

مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق راہل گاندھی نے یہ کہتے ہوئے کہ وہ ملک سے باہر ہیں، پانچ جون کو ای ڈی کے دفتر میں حاضر ہونے کی اجازت چاہی ہے۔یہ معاملہ کانگریس کے اخبار ’نیشنل ہیرالڈ‘ سے متعلق ہے۔ اس میں پہلے بھی تحقیقات ہو چکی ہیں اور اس معاملے کو 2015 میں بند کر دیا گیا تھا البتہ اب ایک بار پھر اسے کھولا گیا ہے۔

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما سبرامنین سوامی نے 2013 میں دہلی کی ایک عدالت میں درخواست دائر کرکے یہ الزام عائد کیا تھا کہ راہل گاندھی کی نجی تنظیم ’ینگ انڈین‘ نے کانگریس کے اخبار ’نیشنل ہیرالڈ‘ کو حاصل کرنے میں فنڈز میں بدعنوانی کی ہے۔انہوں نے وزارتِ خزانہ میں کانگریس رہنماؤں کی جانب سے مبینہ ٹیکس چوری کی شکایت بھی کی تھی۔

اخبار ’نیشنل ہیرالڈ‘ کی مالک کانگریس پارٹی کی کمپنی ’ایسو سی ایٹڈ جرنلز لمٹیڈ‘ (اے جے ایل) تھی۔ وہ ’نیشنل ہیرالڈ‘ کے علاوہ اردو میں ’روزنامہ قومی آواز‘ اور ہندی میں ’نوجیون‘ بھی نکالتی تھی۔ اخبار ’نوجیون‘ پہلے بند ہو چکا تھا البتہ ’نیشنل ہیرالڈ‘ اور ’قومی آواز‘ 2008 میں بند ہوئے۔ اس وقت کمپنی پر 90 کروڑ روپے کا قرض تھا۔

راہل گاندھی نے 2010 میں ’ینگ انڈین‘ نامی ایک نجی تنظیم قائم کی اور اے جے ایل کے حصص حاصل کر لیے۔

سبرامنین سوامی کے الزام کے مطابق اس معاملے میں کروڑوں روپے کی بدعنوانی کی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ اے جے ایل کے پاس 2000 کروڑ روپے کی املاک ہیں۔

’یہ انتقامی کارروائی ہے‘

کانگریس نے اس معاملے پر شدید ردِعمل ظاہر کیا ہے۔ پارٹی کے قومی ترجمان رندیپ سرجے والا کے مطابق یہ انتقامی کارروائی ہے۔

ا

نہوں نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ نہ تو منی لانڈرنگ کا کوئی ثبوت ہے اور نہ ہی منی ایکسچینج کا کوئی ثبوت پیش کیا گیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نہ تو ڈریں گے اور نہ ہی جھکیں گے بلکہ لڑیں گے۔ یہ ایک سیاسی لڑائی ہے۔

ان کے مطابق کانگریس رہنماؤں کو کچھ دن قبل سمن ارسال کیا گیا تھا۔ اگر ضروری ہوا تو سونیا گاندھی یقیناً ای ڈی کے دفتر جائیں گی۔ ہم انہیں لکھ رہے ہیں اور راہل گاندھی کے لیے کچھ مہلت مانگیں گے۔

سرجے والا نے کہا کہ کانگریس پارٹی نے برطانیہ کی حکومت کے خلاف 1942 میں ’نیشنل ہیرالڈ‘ اخبار جاری کیا تھا۔ برطانوی حکومت نے اس پر پابندی لگائی تھی۔ آج پھر انگریزی حکومت کے نظریات والے حکمران ہیں اور وہ تحریکِ آزادی کی آواز کو دبا دینے کی سازش کر رہے ہیں۔

کانگریس کے رکن پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ابھیشیک منو سنگھوی نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ اس معاملے میں منی لانڈرنگ کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ بی جے پی کی حکومت کانگریس کے خلاف انتقامی کارروائی کر رہی ہے۔

کانگریس کے ایک اور قومی ترجمان محمد افضل کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ مرکزی حکومت کی انتقامی سیاست کا حصہ ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں الزام لگایا کہ موجودہ حکومت اپوزیشن رہنماؤں، بالخصوص کانگریس کی لیڈر شپ کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔

ان کے مطابق اس وقت ملک کے عوام مہنگائی، بے روزگاری اور اقتصادی بد حالی کا شکار ہیں اور ان کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ حکومت ان آوازوں کو دبانا چاہتی ہے اور ان مسائل سے عوام کی توجہ دوسری طرف مبذول کرانا چاہتی ہے۔

محمد افضل نے مزید کہا کہ کانگریس رہنماؤں کے خلاف یہ کارروائی ملک کو تقسیم کرنے کی سازش کا ایک حصہ ہے۔

ان کے مطابق سونیا اور راہل گاندھی خوف زدہ نہیں ہوں گے۔ ان کے خاندان سے دو وزرائے اعظم نے ملک کے لیے اپنی جان دی ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ابھی تو کوئی فیصلہ نہیں ہوا لیکن اگر ہوتا ہے تو کانگریس کے کارکن سڑکوں پر آ کر اس کارروائی کے خلاف احتجاج کریں گے۔

بھارت میں حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کی جانب سے پہلے بھی حکومت پر یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ وہ سیاسی حریفوں، خاص طور پر اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف مرکزی ایجنسیوں کا استعمال کر رہی ہے۔

حکومت کی جانب سے کانگریس کے الزامات پر تاحال کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا گیا۔

حکومت کا ماضی میں بھی مؤقف رہا ہے کہ وہ مرکزی ایجنسیوں کو اپوزیشن کے خلاف استعمال نہیں کرتی۔ مرکزی ایجنسیاں آزاد ہیں اور جس کے بھی خلاف بدعنوانی کی شکایت ملتی ہے اس کے خلاف کارروائی کرتی ہیں۔