بھارتی گلو کار سدھو موسے والا کے قتل کے بعد بھارت کی ریاست پنجاب میں جرائم پیشہ گروہ ایک بار پھر توجہ کا مرکز ہیں اور اس واقعے کے بعد متحارب گینگز کے درمیان محاذ آرائی میں شدت آنے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔
اتوار کے روز سدھو موسے والا کے قتل کے بعد کینیڈا میں رہنے والے گینگسٹر گولڈی برار نے اس قتل کی ذمے داری قبول کی تھی۔ برار کا تعلق 'لارنس بشنوئی' گینگ سے ہے۔وہ گینگ کے سربراہ لارنس بشنوئی کا قریبی ساتھی تصور ہوتا ہے۔
بشنوئی کچھ عرصے سے پولیس کی حراست میں ہے اور اسے دہلی کے تہاڑ جیل میں انتہائی سیکیورٹی وارڈ میں رکھا گیا ہے۔
بشنوئی گینگ کی جانب سے سدھو موسے والا کے قتل کی ذمے داری قبول کرنے کے بعد اس کے مخالف گروپ 'بمبیہا' گینگ نے سوشل میڈیا کی ایک پوسٹ میں اعلان کیا ہے کہ وہ اس قتل کا بدلہ لیں گے اور ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ پنجابی گلو کار منکریت اولکھ بھی اس قتل میں ملوث ہیں۔
گزشتہ کئی برسوں سے بھارتی پنجاب میں نوجوان گلوکاروں کے اسلحے اور گینگ کلچر کو اپنے گانوں اور میوزک ویڈیو میں گلیمرائز کرکے پیش کرنے کا رجحان بڑھاہے اور بھارت کی فلم اور انٹرنیٹ انڈسٹری پر اس سے متعلق پہلے بھی تنقید کی جاتی رہی ہے ۔ ریاست پنجاب میں میوزک انڈسٹری کو جرائم پیشہ افراد سے روابط اور دباؤ جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔
بھارتی نیوز چینل ’ٹائمز ناؤ‘ کے مطابق بھارتی پنجاب میں یہ جرائم پیشہ گروہ گلوکاروں اور موسیقاروں کو اپنے اوپر گانے بنانے کے لیے ڈراتے دھمکاتے بھی ہیں۔ اس طرح جرائم پیشہ گروہوں کی اس مخاصمت میں گلوکار اور موسیقار بھی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔
گلوکار اور سیاسی رہنما سدھو موسے والا کے قتل کو بھی جرائم پیشہ گینگز کی طاقت کے لیے ہونے والی اسی باہمی کشمکش کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے۔
موسے والا کا قتل اور بشنوئی گینگ
بھارتی اخبار'انڈین ایکسپریس' کے مطابق سدھو موسے والا کے قتل کی ذمے داری قبل کرنے والے بشنوئی گینگ کو بھارتی پنجاب کے خطر ناک ترین جرائم پیشہ گروہوں میں شمار کیا جاتا ہے۔اس گینگ کے بانی لارنس بشنوئی کا تعلق ضلع فیروز پور سے ہے۔ 1993 میں پیدا ہونے والے بشنوئی نے طالب علم رہنما کے طور پر کریئر کا آغاز کیا تھا۔
سال 2011 میں وہ ’اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن فور پنجاب یونیورسٹی' میں شامل ہوا۔ اسی دوران بشنوئی اپنے آبائی علاقے فیروز پور ہی میں گاڑیوں کی چوری اور بھتہ وصولی کی وارداتوں میں ملوث ہوگیا تھا۔
بھارتی اخبار 'انڈیا ٹائمز' کے مطابق وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بشنوئی نے جرائم پیشہ افراد کو منظم کرکے اپنا گینگ بنانا شروع کیا ۔ یہ گینگ پنجاب کے علاوہ ہریانہ، راجستھان اور دہلی میں بھی سرگرم ہوگیا جہاں اس کے کارندوں کے خلاف مختلف الزامات میں متعدد مقدمات درج ہیں۔
رپورٹس کے مطابق بشنوئی کے گینگ کے لگ بھگ 700 ارکان ہیں جن میں شارپ شوٹر بھی شامل ہیں۔ راجستھان پولیس کی ایک رپورٹ کے مطابق بشنوئی کے گینگ میں شامل شارپ شوٹر اس کے انتہائی وفادار ہیں۔
سلمان خان کو دھمکی اور گینگ کا پھیلاؤ
سال 2018 میں بنگلور میں سمپت نہرا نامی ایک شخص گرفتار ہوا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ بشنوئی کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہے۔
سمپت نہرا نے الزام عائد کیا تھا کہ کالے ہرن کے شکار کے ردعمل میں اسے بالی وڈ اسٹار سلمان خان کو قتل کرنے کا ہدف سونپا گیا تھا اور اسے لارنس بشنوئی نے یہ کام کرنے کے لیے کہا تھا۔
ممبئی پولیس نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ لارنس کا تعلق بشنوئی برادری سے ہے جو کالے ہرن کو مقدس تصور کرتی ہے اور سلمان خان نے اس ہرن کا شکار کیا تھا۔ اسی کے رد عمل میں لارنس بشنوئی نے سلمان خان کو قتل کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔
بعدازاں 2020 میں پولیس نے بشنوئی گینگ کے کارندے راہل عرف سانگا عرف بابا عرف سنی کو اترا کھنڈ سے ایک اور قتل کیس میں گرفتار کیا۔مقامی پولیس نے بعدازاں دعویٰ کیا کہ راہل سے تفتیش میں یہ انکشاف ہوا تھا کہ وہ سلمان خان کو قتل کرنے کے ارادے سے بمبئی گیا تھا اور اس کے لیے دو دن تک اس نے باندرا میں بالی وڈ اسٹار کی رہائش کے قریب قیام بھی کیا تھا۔
موسے والا قتل اور بشنوئی گینگ
جرائم پیشہ منظم گروہوں کے مابین طاقت اور اثرو رسوخ بڑھانے کی لڑائی جاری رہتی ہے جسے گینگ وار کا نام دیا جاتا ہے۔ بھارت کی ریاست پنجاب میں بھی گاہے بگاہے یہ سلسلہ جاری رہا ہے۔
سال 2021 میں مبینہ گینگ وار کے نتیجے میں قتل کے واقعات بھی پیش آئے جن میں بشنوئی گینگ سے وابستہ ایک شخص وِکی مدوکھیڑا کا قتل ہوا تھا۔
اس معاملے میں دہلی پولیس کے اسپیشل سیل نے تین افراد کو گرفتار کیا تھا۔ انہوں نے پوچھ گچھ کے دوران ایک معروف گلوکار کے منیجر کے اس قتل میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔ سمجھا جاتا ہے کہ وہ سنگر یہی سدھو موسے والا تھے۔مدو کھیڑا کے قتل کے بعد سے بشنوئی گینگ اس کا انتقام لینے کے لیے سرگرم ہوچکا تھا۔
انڈین ایکسپریس نے دہلی پولیس کے ذرائع سے یہ دعویٰ کیا ہے کہ بشنوئی اپنے گینگ کے کارندوں سے مسلسل رابطے میں تھا اور ان کے ذریعے سے اس نے اپنے قریبی ساتھی ایم ڈی شاہ رخ کو اپریل میں سدھو موسے والا کو قتل کرنے کی ذمے داری دی تھی۔
پولیس کے مطابق شاہ رُخ نے سدھو موسے والا کو قتل کرنے کے لیے ریکی بھی شروع کردی تھی لیکن اس کی سیکیورٹی کی وجہ وہ اس منصوبے پر عمل درآمد نہیں کرسکا اورحملے سے پہلے ہی گرفتار ہوگیا۔
اتوار کو سدھو کے قتل کے بعد بشنوئی گینگ ہی سے تعلق رکھنے والے گولڈٰی برار نے اس کارروائی کی ذمے داری قبول کی ہے جو اس وقت کینیڈا میں روپوش ہے۔
گولڈی برار کا اصلی نام سیتندرجیت سنگھ ہے۔ اس کے والد شمشیر سنگھ ایک اے ایس آئی تھے اور گزشتہ برس ایک قتل کے مقدمے میں ملوث ہونے کے الزام میں انہیں جبری طور پر ریٹائرڈ کردیا گیا تھا۔
گولڈی برار کو لارنس بشنوئی کا قریبی ساتھی تصور کیا جاتا ہے اور اس کے لیے ہریانہ میں اس کے لیے بھتہ وصولی کا نیٹ ورک بھی چلاتا تھا۔
گزشتہ برس جولائی میں گولڈی کا کزن گرلال برار چندی گڑھ میں قتل ہوگیا تھا اور وہ بھی بشنوئی کے قریبی ساتھیوں میں شامل تھا۔ گرلال کا انتقام لینے کے لیے مبینہ طور پر بشنوئی گینگ نے فرید کوٹ میں کانگریس پارٹی کے یوتھ ونگ کے رہنما گر لال پہلوان کو قتل کردیا تھا۔
گولڈی برار اس مقدمے میں مرکزی ملزم تھا اور اس کے بعد ہی وہ 2021 میں کینیڈا فرار ہوگیا تھا۔
مدو کھیڑا کا تعلق بھارتی پنجاب کی اہم سیاسی جماعت اکالی دل کے نوجوانوں کے ونگ سے تھا جب کہ سدھو موسے والا کانگریس میں شامل تھے اور انہوں نے حال ہی میں ہونے والے پنجاب کے ریاستی انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا۔
گولڈی برار نے قتل کی ذمے داری قبول کرنے کے لیے کی گئی پوسٹ میں یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ اس کے کزن گر لال اور مدو کھیڑا کے قتل میں موسے والا کا نام آیا تھا لیکن وہ اپنا سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرکے قانونی کارروائی سے بچ جاتا تھا۔ تاہم ابھی تک اس قتل کے سیاسی محرکات کے بارے میں کوئی بات سامنے نہیں آسکی ہے۔
سدھو اور بمبیہا گینگ
نیوز چینل ٹائمز ناؤ کے مطابق سدھو موسے والا کا نام بمبیہا گینگ سے جوڑا جارہا ہے۔ وہ اس گینگ کے بانی دیویندر بمبیہا کے لیے ایک گیت بھی گا چکے تھے۔
دیوندر بمبیہا کا اصل نام دیوندر سنگھ سدھو تھا اور وہ کبڈی کا معروف کھلاڑی رہا تھا۔ دیوندر کا تعلق پنجاب کے ضلع موگا کے گاؤں بمبیہا سے تھا۔ 2010 میں بمبیہا دورانِ تعلیم اپنے گاؤں میں ہونے والے ایک قتل کے الزام میں گرفتار ہوا تھا۔
اس کے بعد 21 برس کی عمر میں وہ جیل سے فرار ہوگیا اور بعد ازاں اس نے ایک گینگ بنالیا تھا۔2012 میں اس کا شمار پنجاب کے مطلوب ترین افراد میں ہونے لگا تھا۔
بھارتی اخبار 'فرسٹ پوسٹ' کے مطابق دیوندر بمبیہا لوٹ مار اور قتل کے کئی مقدمات میں نامزد تھا اور اپنی غیر قانونی سرگرمیاں فیس بک پر بھی پوسٹ کرتا رہتا تھا۔ اپنی پوسٹس میں وہ پنجاب پولیس کو بھی براہِ راست چیلنج کرتا تھا۔
دیوندر بمبیہا ستمبر 2016 میں ضلع بھٹنڈا میں پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا۔ اس وقت دیوندر کی عمر صرف 26 برس تھی۔
بمبیہا اور بشنوئی گروپ کی محاذ آرائی
دیوندر کی ہلاکت کے بعد اس کے دو قریبی ساتھی دلپریت اور سکھ پریت بمبیہا گینگ کو چلانے لگے۔ دیوندر بمبیہا کے دور ہی میں اس کے گینگ اور بشنوئی گینگ میں محاذ آرائی شروع ہوچکی تھی اور یہ ایک دوسرے کے کارندوں کو قتل کرنے کی وارداتوں میں بھی ملوث رہے تھے۔
بمبیہا گینگ سے تعلق رکھنے والے کئی افراد گرفتار ہونے کے بعد جیلوں میں بھی اپنے نئے اتحادی تلاش کرتے رہے۔ پنجاب کے باہر ہریانہ اور دہلی کے نواحی علاقوں کے جرائم پیشہ افراد کے ساتھ تعلقات بنا کر گینگ نے اپنی سرگرمیوں کا دائرہ بڑھانا شروع کردیا۔
ستمبر 2021 میں اس گینگ نے اپنے ایک مخالف گینگسٹر جیتندر گوگی کو کمرۂ عدالت میں قتل کردیا تھا اور اس واردات کی وجہ سے اس کی دہشت بڑھنے لگی۔اس کے علاوہ یہ گینگ کبڈی کے انٹرنینشل کھلاڑی اور سندیپ سنگھ ننگل امبیا کے قتل میں بھی ملوث رہا ہے۔
اسی بمبیہا گینگ نے سدھو موسے والا کے قتل کی مذمت بھی کی ہے اور بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس قتل کا بدلہ لینے کا بھی اعلان کیا ہے۔
بھارتی نیوز ویب سائٹ دی'فرسٹ پوسٹ' کے مطابق بمبیہا گینگ کا کہنا ہے کہ سدھو موسے والا کا نام اس سے جوڑا جارہا ہے اس لیے اب وہ اس قتل کا انتقام لیں گے۔ اسی طرح بمبیہا گینگ کے ایک اور اتحادی نیرج بوانا گینگ نے بھی اپنی فیس بک پوسٹ میں سدھو موسے والا کے قتل کا انتقام لینے کی دھمکی دی تھی اور مقتول گلوکار کے بارے میں کہا تھا کہ وہ ان کے بھائیوں کی طرح تھا۔
گینگ وار کا خطرہ
بشنوئی گروپ کی جانب سے سدھو والا کے قتل کی ذمے داری قبول کرنے اور بمبیہا گینگ کے اس قتل کا انتقام لینے کے بیانات کے بعد خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ بھارتی پنجاب میں جرائم پیشہ مسلح گروہوں کی محاذ آرائی یا گینگ وار میں شدت آئے گی۔
بھارتی ہفت روزہ جریدے 'دی ویک' کے نمائندہ خصوصی پراتل شرما کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی شمالی ریاستوں بالخصوص پنجاب، اتراکھنڈ، ہریانہ، دہلی اور چندی گڑھ میں سدھو موسے والا کے قتل کے بعد پولیس کو شدید مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پولیس پہلے ہی ان ریاستوں میں ان جرائم پیشہ گروہوں کی پھیلائی گئی دہشت ختم کرنے کے لیے دباؤ کا شکار ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان گینگسٹرز میں سے بعض کو سیاسی سرپرستی حاصل ہے جس کی وجہ سے پولیس بھی خاموش تماشائی ہے۔ گینگسٹر کے لیے میدان کھلا ہے کیوں کہ انہیں فلموں اور موسیقی میں گلیمرائز کرکے پیش کیا جارہا ہے۔
پراتل شرما کے مطابق یہ گینگ طلبہ یونین کی بھی سرپرستی کرتے ہیں اور کئی مقامات پر طلبہ رہنماؤں کو ان گینگسٹرز کی تصاویر اور نام استعمال کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے۔
بھارتی اخبار 'انڈین ایکسپریس' کے مطابق بشنوئی اور بمبیہا گینگ کے بہت سے کارندے پولیس کی حراست میں ہیں لیکن ان کے بہت سے اہم لوگ دبئی، تھائی لینڈ اور کینیڈا سے اپنے نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ دونوں گینگ پہلے ہی اپنے اتحادیوں کے ساتھ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا تھے۔ اپنا دائرہ اثر بڑھانے کے لیے یہ گینگ کئی مقامی اتحادی بنا چکے تھے جن میں سرد جنگ چلی آرہی تھی۔
اس ماحول میں سدھو موسے والا کے قتل سے یہ گینگ ایک بار پھر آمنے سامنے آگئے ہیں اور ان کی کشیدگی میں اضافے کا خدشہ بھی پیدا ہوگیا ہے۔