مصر کے دارالحکوم قاہرہ میں ہزاروں افراد نے جمعے کے روز صدارتی مقابلے کے ایک امیدوار کے حق میں مظاہرہ کیا، جن کے بارے میں یہ خدشات موجود ہیں کہ انہیں اس بنا پر انتخابی دوڑ سے باہر نکالا جاسکتا ہے کیونکہ ان کی والدہ امریکی شہری ہیں۔
مظاہرین 50 سالہ ہاشم ابو اسماعیل کی بڑی بڑی تصویریں اٹھائے ہوئے تھے۔ اسماعیل پیشے کے اعتبار سے ایک وکیل ہیں جو بعد میں مبلغ بن گئے تھے اور حالیہ مہینوں میں وہ ایک مضبوط صدارتی امیدوار کے طورپر سامنے آئے ہیں۔
انہیں قدامت پسند مسلمان طبقے کی، جنہیں سلفی کہاجاتا ہے، بڑے پیمانے پر حمایت حاصل ہے۔
ابواسماعیل کے حق میں اس بڑے مظاہرے نے حکومت اور صدارتی دوڑ میں شامل امیدواروں کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔
صدر حسنی مبارک کے بعد ملک میں ہونے والے پہلے صدارتی انتخابات میں سابق دور کے کئی عہدے دار اور اسلام پسند راہنما ایک دوسرے کے بالمقابل ہیں۔
توقع کی جارہی ہے کہ انتخابات مئی کے آخر میں ہوں گے۔
مسکراتے چہرے اور روایتی لمبی داڑھی کے ساتھ ابواسماعیل کی تصویریں قاہرہ اور ملک کے دیگرشہروں میں بڑے پیمانے پر دکھائی دے رہی ہیں۔
مصر کے الیکشن کمشن نے جمعرات کو یہ کہاتھا کہ ہاشم ابواسماعیل کی والدہ امریکی شہری تھیں، لیکن کمشن نے براہ راست ان کے نااہل ہونے کا اعلان نہیں کیا، کیونکہ اس نے ابھی امیدواروں کی درخواستوں کی چھان بین شروع نہیں کی۔
صدر حسنی مبارک کے بعد ملک میں ایک قانون نافذ کیا گیا تھا کہ جس کے تحت صدارتی امیدوار کے پاس مصر کے علاوہ کسی اور ملک کی شہریت نہیں ہونی چاہیے۔اور یہ کہ امیدوار کی شریک حیات اور ان کے والدین بھی کسی دوسرے ملک کی شہریت نہ رکھتے ہوں۔
کسی اسلام پسند کی الیکشن میں کامیابی مصرکی پارلیمنٹ پر بھی اثرانداز ہوگی جہاں اخوان المسلمون نصف سے زیادہ نشستوں پر قابض ہے اور دوسرے نمبر پر ایک چوتھائی نشستوں کے ساتھ سفلی جماعت النور پارٹی ہے۔