مصر کی ایک اعلیٰ عدالت نے اتوار کو ایک معروف وکیل اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ماہ نور المصری اور دو دیگر افراد کو ایک پولیس اسٹیشن پر حملے کے جرم میں 15 ماہ قید کی سزا سنائی ہے۔
اسکندریہ کی عدالت نے جب فیصلہ سنایا تو المصری نے ’’فوج مردہ باد‘‘ کا نعرہ لگایا۔
المصری اور ان کے دو دیگر افراد کو ایک ذیلی عدالت نے ابتدائی طور پر دو سال قید کی سزا سنائی تھی۔
اس سزا کے خلاف ان کی اپیل مسترد کر دی گئی، تاہم عدالت نے ان کی سزا کو کم کر دیا۔ المصری 2013ء میں اپنے ایک گرفتار کیے گئے ساتھی وکیل سے متعلق معلومات حاصل کرنے اسکندریہ پولیس اسٹیشن گئی تھیں۔
پولیس اہلکاروں نے المصری اور ان کے ساتھیوں کے خلاف پولیس اسٹیشن کی عمارت پر دھاوا بولنے اور اہلکاروں پر حملہ کرنے کا الزام عائد کیا۔
اسکندریہ کی عدالت کے باہر موجود ان کے حامیوں نے اس فیصلے کو سیاسی فیصلہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
ایک مدعی یوسف شعبان جو صحافی بھی ہیں کی اہلیہ نے کہا کہ انہیں (عدالت کی طرف سے) مجرم قرار دینے کے فیصلے کی توقع تھی کیونکہ ان کے بقول مصری حکومت تبدیل نہیں ہوئی ہے۔
’’جو کچھ اخوان (المسلمین) کے دور مییں ہوتا تھا وہی کچھ (صدر عبدالفتح) السیسی کے دور میں زیادہ ہولناک طریقے سے ہو رہا ہے۔ ایک بڑی تعداد میں لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے اور ہمیں اس پر حیرانی نہیں ہو رہی اور نہ ہی ہمیں کسی انصاف کی توقع ہے کیونکہ اب یہ ایک معمول بن گیا ہے۔ تمام وقت غیر منصفانہ الزام عائد کیے جاتے ہیں۔‘‘
دوسری طرف اتوار کو ہی مصری حکومت کی سرپرستی میں کام کرنے والی انسانی حقوق کی قومی کونسل نے کہا کہ صدر محمد مرسی کے اقتدار سے ہٹائے جانے کے 18 ماہ کے دوران تشدد میں پولیس اہلکاروں اور عام شہریوں سمیت تقریباً 2,600 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
فوج نے ملک میں آزادانہ طور پر منتخب ہونے والے پہلے صدر محمد مرسی کو جولائی 2013ء میں اقتدار سے معزول کر دیا تھا۔
ان کی جماعت اخوان المسلمین کی حمایت میں نکالے گئے اکثر احتجاجی جلوس تشدد کا شکار ہوئے۔ قاہرہ میں مرسی نواز دو احتجاجی کیمپوں میں ہونے والی پولیس کارروائی میں سیکڑوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔