حالیہ ہفتوں میں مظاہروں اور تشدد کے واقعات سے ملکی معیشت کو مزید نقصان پہنچا ہے جو 2011 میں حسنی مبارک کی اقتدار سے علیحدگی کے بعد پہلے ہی مشکلات میں گھری ہوئی تھی۔
مصر کے صدر محمد مرسی نے اپنے ملک کے باشندوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ملک کی تعمیر نو کے لیے مل کرکام کریں۔
ہفتے کے روز نومنتخب پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب وقت کا تقاضا کہ اپنی توجہ کام، سنجیدگی اور جدوجہد پر مرکوز کی جائے۔
انہوں نے سوئز کینال اور سینائی جیسے علاقوں کے لیے اپنے منصوبوں کا اعلان کیا جس کےذریعے وہاں سرمایہ کاری ہوگی اور ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔
حالیہ ہفتوں میں مظاہروں اور تشدد کے واقعات سے ملکی معیشت کو مزید نقصان پہنچا ہے جو 2011 میں حسنی مبارک کی اقتدار سے علیحدگی کے بعد پہلے ہی مشکلات میں گھری ہوئی تھی۔
حالیہ مظاہرے اس نئے آئینی مسودے کے خلاف شروع ہوئے تھے جسے ایک ایسی کمیٹی نے منظور کیا تھا جس میں اسلام پسندوں کی اکثریت تھی اور کمیٹی کے عیسائی اور اعتدال پسند ارکان نے یہ کہتے ہوئے مسودے کی تیاری سے علیحدگی اختیار کرلی تھی کہ ان کی آواز نظر انداز کی جارہی ہے۔
مگر بڑے پیمانے پر احتجاج کے باوجود عوام کی ایک بڑی تعداد نے ریفرنڈم کے دوران آئینی مسودے کے حق میں ووٹ دیا۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ ریفرنڈم میں حصہ لینے والوں کی تعداد کل اہل ووٹروں کے محض 30 فی صد کے لگ بھگ تھی۔
صدر مرسی نے نئے آئین کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ تمام لوگوں کے لیے مساوی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔
ہفتے کے روز نومنتخب پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب وقت کا تقاضا کہ اپنی توجہ کام، سنجیدگی اور جدوجہد پر مرکوز کی جائے۔
انہوں نے سوئز کینال اور سینائی جیسے علاقوں کے لیے اپنے منصوبوں کا اعلان کیا جس کےذریعے وہاں سرمایہ کاری ہوگی اور ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔
حالیہ ہفتوں میں مظاہروں اور تشدد کے واقعات سے ملکی معیشت کو مزید نقصان پہنچا ہے جو 2011 میں حسنی مبارک کی اقتدار سے علیحدگی کے بعد پہلے ہی مشکلات میں گھری ہوئی تھی۔
حالیہ مظاہرے اس نئے آئینی مسودے کے خلاف شروع ہوئے تھے جسے ایک ایسی کمیٹی نے منظور کیا تھا جس میں اسلام پسندوں کی اکثریت تھی اور کمیٹی کے عیسائی اور اعتدال پسند ارکان نے یہ کہتے ہوئے مسودے کی تیاری سے علیحدگی اختیار کرلی تھی کہ ان کی آواز نظر انداز کی جارہی ہے۔
مگر بڑے پیمانے پر احتجاج کے باوجود عوام کی ایک بڑی تعداد نے ریفرنڈم کے دوران آئینی مسودے کے حق میں ووٹ دیا۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ ریفرنڈم میں حصہ لینے والوں کی تعداد کل اہل ووٹروں کے محض 30 فی صد کے لگ بھگ تھی۔
صدر مرسی نے نئے آئین کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ تمام لوگوں کے لیے مساوی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔