حزب اختلاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جب تک متنازع صدارتی فرمان کو واپس اور آئینی مسودے پر ریفرنڈم کو مسنوخ نہیں کیا جاتا وہ صدر مرسی سے مذاکرات نہیں کرنا چاہتے۔
مصر میں جاری سیاسی بحران تیسرے ہفتے میں داخل ہو گیا ہے جب کہ صدر محمد مرسی نے ہفتہ کو حزب مخالف سے ’’جامع‘‘ مذاکرات کرنے کو کہا ہے۔
حزب اختلاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جب تک متنازع صدارتی فرمان کو واپس اور آئینی مسودے پر ریفرنڈم کو مسنوخ نہیں کیا جاتا وہ صدر مرسی سے مذاکرات نہیں کرنا چاہتے۔
ایک روز قبل مصر کے تارکین وطن کی طرف سے آئینی مسودے پر رائے دہی کو منسوخ کر دیا تھا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ شاید صدر مرسی حزب مخالف سے مذاکرات کے لیے رضا مند ہوں۔
گزشتہ دو ہفتوں سے قاہرہ میں صدر مرسی کے حامیوں اور مخالفین کی طرف سے مظاہروں اور جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
حزب مخالف کے ایک اتحاد کے عہدے دار اور سابق صدارتی امیدوار محمد البرادی نے کہا ہے کہ مفاہمت پر صدر کی جانب سے انکار نے موجودہ بحران کو جنم دیا ہے۔
جمعہ کو صدر محمد مرسی کے مخالفین نے قاہرہ میں صدارتی محل کی حفاظتی باڑ توڑ دی تھی اور وہاں ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین جمع ہوگئے۔
یہ مظاہرے گذشتہ ماہ کے آخر میں جاری کیے جانے والے صدارتی فرمان کے بعد شروع ہوئے تھے جس کے مطابق صدر کے عہدے کو عدالتی احکامات سے بالاتر قرار دے دیا گیا تھا۔ اس فرمان کے توسط سے انہیں وسیع تر اختیارات حاصل ہوگئے ہیں اور صدر مرسی کے کسی حکم یا فیصلے کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔
حزب اختلاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جب تک متنازع صدارتی فرمان کو واپس اور آئینی مسودے پر ریفرنڈم کو مسنوخ نہیں کیا جاتا وہ صدر مرسی سے مذاکرات نہیں کرنا چاہتے۔
ایک روز قبل مصر کے تارکین وطن کی طرف سے آئینی مسودے پر رائے دہی کو منسوخ کر دیا تھا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ شاید صدر مرسی حزب مخالف سے مذاکرات کے لیے رضا مند ہوں۔
گزشتہ دو ہفتوں سے قاہرہ میں صدر مرسی کے حامیوں اور مخالفین کی طرف سے مظاہروں اور جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
حزب مخالف کے ایک اتحاد کے عہدے دار اور سابق صدارتی امیدوار محمد البرادی نے کہا ہے کہ مفاہمت پر صدر کی جانب سے انکار نے موجودہ بحران کو جنم دیا ہے۔
جمعہ کو صدر محمد مرسی کے مخالفین نے قاہرہ میں صدارتی محل کی حفاظتی باڑ توڑ دی تھی اور وہاں ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین جمع ہوگئے۔
یہ مظاہرے گذشتہ ماہ کے آخر میں جاری کیے جانے والے صدارتی فرمان کے بعد شروع ہوئے تھے جس کے مطابق صدر کے عہدے کو عدالتی احکامات سے بالاتر قرار دے دیا گیا تھا۔ اس فرمان کے توسط سے انہیں وسیع تر اختیارات حاصل ہوگئے ہیں اور صدر مرسی کے کسی حکم یا فیصلے کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔