مصر کے صدر حسنی مبارک کی برطرفی کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین نے قاہرہ کے التحریر اسکوائر اور پارلیمان کی عمارت کے باہر احتجاج کا سلسلہ جمعرات کو بھی جاری رکھا جب کہ حزب اختلاف نے ملک کے دوسرے شہروں میں ملازمت پیشہ افراد کی مدد سے ایسے اقدامات بھی شروع کر دیے ہیں جن سے سیاحت، صنعت، ریل کا نظام اور حکومت کا کام متاثر کیا جاسکے۔
حکومت مخالف مظاہرین صدر مبارک کے 30 سالہ اقتدار کے خاتمے کے علاوہ گذشتہ سال کے آخر میں مبینہ طور پر متنازع انتخابات میں منتخب ہونے والے اراکین پارلیمان سے استعفوں کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔
مصر کے نائب صدر عمر سلیمان نے کہا ہے کہ حکومت التحریر اسکوائر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ زیادہ عرصے تک برداشت نہیں کرے گی۔ اُنھوں نے مظاہرین کو متنبہ کیا کہ وہ مزید سول نافرمانی کے مرتکب نہ ہوں کیوں کہ یہ اُن کے لیے ’انتہائی خطرناک‘ ثابت ہوگا۔
مظاہروں کے منتظمین کا کہنا ہے کہ وہ جمعہ کو ہونے والے بڑے احتجاج کے دوران سرکاری ریڈیو اور ٹی وی کے دفاتر کی طرف جلوس بھی نکالیں گے۔
گذشتہ ماہ شروع ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے بعد سے قاہرہ کا مرکزی التحریر اسکوائر ایک خیمہ بستی میں تبدیل ہو چکا ہے جہاں طبی سہولتیں، ریڈیو اسٹیشن اور خطاب کے لیے چبوتروں کے علاوہ موبائل فون کی بیٹریاں چارج کرنے ک انتظامات بھی موجود ہیں۔
صدر مبارک کی طرف سے تشکیل دی گئی ججوں اور قانونی ماہرین پر مشتمل کمیٹی نے ایک روز قبل چھ آئینی ترامیم پر اتفاق کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئین کی مزید شقوں میں بھی تبدیلی کی جا سکتی ہے۔