مظاہرین پر تشدد، مبارک دور کی یاد تازہ کرتا ہے: اخوان

بقول اخوان المسلمین، احتجاج کی شدت کم کرنے کے لیے، حکام معزول راہنما حسنی مبارک کے ہتھکنڈے اختیار کرنے سے دریغ نہیں کرتے
مصر میں اخوان المسلمین نے حکام کی طرف سے حکومت مخالف احتجاج کو سخت ہتھکنڈوں کے ذریعے روکنے پر نکتہ چینی کی ہے، اور اس کا الزام ملک کی فوج پر دیا ہے۔

بقول اُس کے، مظاہروں کی شدت کم کرنے کی غرض سے، حکام معزول راہنما حسنی مبارک کے ہتھکنڈے اختیار کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔


قاہرہ میں منگل کے روز دو احتجاجی مظاہروں کو تتر بتر کرنے کے لیے پولیس نے تیز دھار والے پانی کا استعمال کیا، اور درجنوں افراد کو گرفتار کرلیا۔

حکام نے ایک نئے قانون کا نفاذ کیا ہے ،جِس کے تحت بغیر پیشگی اجازت کے مظاہرہ کرنا خلاف قانون ہے۔


اخوان کی سیاسی امور سے متعلق تنظیم کے ترجمان نے بدھ کو ایک بیان میں کہا ہے کہ سکیورٹی فورسز جو کھلی چھٹی دی گئی ہے، اور بقول اُن کے، اس کی مثال مسٹر مبارک کے آمرانہ دور ِحکومت کے مظالم، آزادی اظہار کے انحراف اور حقوق کی پامالی کی صورت میں ملتی ہے۔

اخوان المسلمین نے اِس نئے قانون کو ’آمرانہ‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کا مقصد مخالفت بند کرانا ہے۔

منگل کی رات گئے، احتجاج کرنے والے سینکڑوں افراد نے اس قانون کی خلاف ورزی کی اور پولیس کارروائی کا مقابلہ کیا۔ مظاہرین قاہرہ کے کسی پرانے علاقے میں جمع ہوئے اور اپنی شکایات پر آواز بلند کی۔

منگل کے روز کی گئی گرفتاریوں کے بعد، مصر کے نئے آئین کا مسودہ تیار کرنے کے لیے تشکیل دیے گئے 10 ارکان کے پینل نے احتجاج کے طور پر اپنا کام معطل کر دیا۔

منگل کے ہی روز، انسانی حقوق کے لیے اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر، نوی پلے نے مصر کی عبوری حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس قانون میں ترمیم کرے یا اس پر اپیل داخل کی جائے۔

اُنھوں نے متنبہ کیا کہ یہ قانون آزادی اظہار کے حق کی پامالی کی راہ ہموار کرتا ہے۔