تقریباً تیس برس حکومت کرنے کے بعد، مسلمان اکثریت والے ایک ملک کے حکمراں کو سڑکوں پر عوام کے زبردست احتجاج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔فوج صدر کو، جو سابق جنرل ہیں، استعفیٰ دینے کے لیئے مجبور کرتی ہے ۔ سڑکوں پر لوگ دیوانہ وار جشن مناتے ہیں۔ صدر کے جانے کے بعد بھی فوج کے پاس کافی اختیارات ہیں۔ یہ کہانی جانی پہچانی معلوم ہوتی ہے لیکن یہ مصر اور حسنی مبارک کی کہانی نہیں ہے۔ یہ انڈونیشیا ہے جہاں صدر سہارتو کا تختہ الٹا گیا تھا۔
نیشنل سیکورٹی کونسل کی سابق ڈائریکٹر برائے ایشیائی امورکیرن بروکس کہتی ہیں کہ 2011 کے مصر اور 1998 کے انڈونیشیا کے درمیان کئی اہم باتیں مشترک ہیں۔’’دونوں ملکوں کے حکمراں ، مبارک اور سہارتو، تقریباً تیس برسوں سے امریکہ کے اتحادی تھے ، اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکی حمایت کی وجہ سے وہاں جمہوریت اور انسانی حقوق کا فقدان تھا۔ لیکن پھر خارجی عوامل کی وجہ سے، یعنی انڈونیشیا میں ایشیائی مالی بحران، اور مصر میں تیونس کی مثال سے حالات تبدیل ہو گئے۔‘‘
مصر اور انڈونیشیا میں فوج کا سیاسی رول خاصا اہم رہا ہے ، اگرچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انڈونیشیا میں فوج زیادہ سرگرم تھی۔ سہارتو کے تحت فوج کا دہرا رول تھا جس میں وہ سیکورٹی اور سیاسی دونوں قسم کے فرائض انجام دیتی تھی۔ کیرن بروکس کہتی ہیں کہ دونوں ملکوں میں فوج نے کلیدی کردار ادا کیا۔’’دونوں ملکوں میں فوج سیکولر اور قوم پرست ادارہ ہے جس نے، خاص طور سے مصر میں، واقعات کی سمت متعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ دونوں ملکوں کے لیڈر فوج کے کہنے پر اقتدار سے دستبردار ہوئے۔‘‘
مصر آج کل سپریم کونسل آف آرمڈ فورسز کے تحت ہے ۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ تشویش ہمیشہ باقی رہتی ہے کہ کسی ملک میں انقلاب آنے کے بعد، فوج، اقتدار سویلین کنٹرول کے حوالے نہیں کرے گی۔لیکن سی آئی اے کے سابق سینیئر انٹیلی جنس تجزیہ کارایمائل نخلاح کہتے ہیں کہ انڈونیشیا میں فوج نے اقتدار چھوڑ دیا اور اس کی ایک وجہ وہ تربیت تھی جو انھیں امریکی فوجی اداروں میں ملی تھی۔
انھوں نے کہا’’انڈونیشیا کی فوج میں جو سابق ڈکٹیٹر سہارتو کے تحت تھی، بہت سے ایسے افسر تھے جنھوں نے امریکہ میں تربیت حاصل کی تھی ۔انھوں نے یہ بات سمجھ لی تھی کہ بالآخر انڈونیشیا کو آگے بڑھنے کے لیئے ، سویلین کنٹرول ضروری ہوگا۔ ملٹری پس منظر میں چلی گئی اور اس نے کہا کہ وہ انڈونیشیا کی حفاظت کرے گی ، چاہے حکومت کسی کی بھی ہو۔‘‘
کیا مصر میں بھی فوج ایسا ہی کرے گی؟ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ انڈونیشیا کی طرح ، بہت سے مصری فوجیوں نے بھی امریکہ میں فوجی تربیت حاصل کی ہے ۔ امریکی فوج کے ریٹائرڈ کرنل جوزف انگلہارڈٹ جو قاہرہ میں امریکی فوجی اتاشی رہ چکے ہیں ، کہتے ہیں کہ فوج جتنی جلدی ممکن ہو، سیاست سے الگ ہونا چاہتی ہے۔’’میں سمجھتا ہوں کہ ان فوجی افسروں نے یہ کام اپنا فرض اور اپنی ذمہ داری سمجھ کر سنبھالا ہے ۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ ایک محدود وقت کے لیئے ہے ۔اس گروپ کا رجحان یہی ہوگا کہ انہیں جو کچھ کرنا ہے وہ کریں گے اور پھر وہ اپنے معمول کے کام پر واپس آ جائیں گے یعنی فوجی خدمات انجام دینا۔‘‘
مصر کی فوجی کونسل نے کہا ہے کہ وہ عارضی طور سے چھ مہینے کے لیئے یا جب تک پارلیمانی اور صدارتی انتخاب نہیں ہو جاتے، ملک کا نظم و نسق چلائِے گی۔
سی آئے اے کے سابق افسرایمائل نخلاح کہتے ہیں کہ حکمراں فوج کے لیئے پہلا اور اہم ترین قدم یہ ہو گا کہ ملک میں امرجینسی ختم کی جائے۔’’وہ ہنگامی حالت کب ختم کریں گے؟ انھو ں نے پارلیمنٹ تحلیل کر دی ہے جو صحیح سمت میں اچھا قدم ہے ۔انھوں نے آئین ختم کر دیا ہے ۔انھوں نے موجودہ حکومت کو چھ مہینے کے لیئے عارضی طور پر باقی رکھا ہے ۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اہم بات یہ ہے کہ ہنگامی حالت کو ختم کیا جائے ۔ میرے خیال میں ، سب سے بڑا ٹیسٹ یہی ہوگا۔‘‘
ہنگامی حالت کے تحت سیکورٹی فورسز کو بہت وسیع اختیارات حاصل ہیں۔