مصر نے دھمکی دی ہے کہ اگر غزہ پر اسرائیلی حملے غزہ کے سرحدی شہر رفح تک پھیل گئے تو وہ اسرائیل کے ساتھ اپنا امن معاہدہ معطل کر دے گا۔
دو مصری عہدے داروں اور ایک مغربی سفارت کار نے یہ بات نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتائی ہے۔
مصر نے تقریباً نصف صدی سے خطے میں امن کے ضامن کیمپ ڈیوڈ نامی اس معاہدے کو معطل کرنے کی دھمکی ایسے میں دی ہے جب اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا ہے کہ فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے خلاف چار ماہ سے جاری جنگ جیتنے کے لیے ضروری ہے کہ اسرائیلی فوجی رفح میں داخل کیے جائیں۔ اور یہ کہ وہ اسرائیلی فوج سے لوگوں کے انخلاء کا پروگرام ترتیب دینے کے لیے کہیں گے۔
رفح وہ علاقہ ہے جہاں غزہ کے تقریباً 23 لاکھ لوگوں نے دیگر علاقوں میں جاری جنگ سے بھاگ کر پناہ لے رکھی ہے۔
وہ رفح میں اقوامِ متحدہ کے قائم کردہ وسیع اور بھرے ہوئے کیمپوں اور پناہ گاہوں میں مقیم ہیں۔ مصر کو خدشہ ہے کہ اگر لاکھوں افراد کا انخلاء ہوا تو ہو سکتا ہے وہ اس علاقے میں دوبارہ واپس نہ آسکیں۔
SEE ALSO: مصر نے غزہ سے ملحق بفر زون کی نگرانی کی اسرائیلی درخواست مسترد کردی: ذرائعامریکہ کے دو قریبی اتحادیوں، مصر اور اسرائیل کے درمیان یہ کشیدہ صورتِ حال ایسے میں پیدا ہوئی ہے جب امدادی گروپوں نے خبردار کیا ہے کہ رفح میں جنگ سے، غزہ میں، جہاں سے تقریباً 80 فی صد آبادی نقل مکانی کر چکی ہے اور جہاں اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ ایک چوتھائی لوگوں کو بھوک کا سامنا ہے، پہلے سے موجود انسانی زندگی کی مخدوش صورتِ حال مزید ابتر ہو جائے گی۔
اسی دوران حماس کے الاقصیٰ نامی ٹیلیویژن اسٹیشن نے حماس کے ایک نامعلوم عہدے دار کے حوالے سے کہا ہے کہ رفح پر کوئی بھی حملہ، امریکہ، مصر اور قطر کے تعاون سے جنگ بندی اور اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی کے بارے میں ہونے والی بات چیت کو ان کے الفاظ میں،" اڑا دےگا"
سویلینز کہاں جائیں گے؟ کوئی نہیں جانتا
اسرائیلی وزیرِ اعظم نے امریکی ٹیلی ویژن اے بی سی کے پروگرام، " دس ویک ود جارج اسیٹیفناپولس" میں ایک انٹرویو کے دوران کہا ہے کہ سویلینز شمال کی طرف جا سکتے ہیں جہاں ان کے بقول بہت سے ایسے علاقے ہیں جنہیں فوج نے کلیر کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا، اسرائیل انہیں منتقل کرنے کا ایک،"تفصیلی منصوبہ" بنا رہا ہے۔
غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد شمالی غزہ میں خاص طور پر بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اور وسطی غزہ اور جنوبی شہر خان یونس میں اب بھی شدید لڑائی جاری ہے۔
رفح میں زمینی آپریشن رفح کراسنگ کو بند بھی کر سکتا ہے، جس سے خوراک اور طبی سامان کی فراہمی کا واحد راستہ بند ہو جائے گا۔ رفح میں پناگزینوں کو اس وقت رسد کی شدید ضرورت ہے۔
SEE ALSO: ایک متوقع اسرائیلی حملے سے قبل نیتن یاہو کا رفح سے فلسطینیوں کے انخلا کا اعلانقطر، سعودی عرب اور دیگر ممالک نے بھی اسرائیل کے رفح میں داخل ہونے کے شدید نتائج سے خبردار کیا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے ایکس(سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے پیغام میں کہا ہے:"رفح پر اسرائیلی حملہ، ایک ناقابل بیان انسانی تباہی اور مصر کے ساتھ شدید کشیدگی کا باعث بنے گا۔"
کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر دستخط کرنے سے پہلے اسرائیل اور مصر کے درمیان پانچ جنگیں لڑی گئی تھیں۔ 1970 کی دہائی کے آخر میں یہ معاہدہ اس وقت کے امریکہ کے صدر جمی کارٹر کی ثالثی میں ایک تاریخی امن معاہدہ تھا۔ اس معاہدے میں سرحد کے دونوں طرف افواج کی تعیناتی سے متعلق کئی دفعات شامل ہیں۔
مصر نے غزہ کے ساتھ اپنی سرحد کو بہت زیادہ مضبوط کیا ہے۔ ایک 5 کلومیٹر (3 میل) بفر زون بنایا گیا ہے اور زمین کے اوپر اور زیرِ زمین کنکریٹ کی دیواریں کھڑی کی گئی ہیں۔
مصر نے اسرائیل کے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ حماس اب بھی سرحد کے نیچے اسمگلنگ کے لیے سرنگیں چلا رہا ہے اور کہا ہے کہ وہاں مصری افواج کا مکمل کنٹرول ہے۔
لیکن مصری حکام کو خدشہ ہے کہ اگر سرحد کی خلاف ورزی کی گئی تو فوج جزیرہ نما سینائی کی طرف جانے والے لوگوں کی لہر کو روکنے میں ناکام رہے گی۔
اقوام متحدہ نے بھی کہا ہے کہ رفح، جہاں عام طور پر 3 لاکھ سے بھی کم لوگوں کی آبادی ہے، اب وہاں 14 لاکھ سے بھی زیادہ افراد موجود ہیں جو دوسرے مقامات پر لڑائی سے بھاگ کر آئے ہیں اور اب وہاں شدید بھیڑ ہے۔
نیتن یاہو نے کہا ہے کہ حماس کے پاس اب بھی چار بٹالین موجود ہیں۔ انہوں نے امریکی ٹیلی ویژن اے بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’جو لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں کسی بھی حالت میں رفح میں داخل نہیں ہونا چاہیے وہ بنیادی طور پر یہ کہہ رہے ہیں کہ جنگ ہار جاؤ، حماس کو وہیں رکھو‘‘۔
فلسطینی جانی نقصان میں مسلسل اضافہ
اسرائیل نے غزہ کے دو تہائی علاقے پر محیط آبادی کو انخلاء کے احکامات کے ساتھ جنوب کی طرف جانے کا حکم دیا ہے، جب کہ وہ رفح سمیت تمام علاقوں میں باقاعدگی سے فضائی حملے کر رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں اس قصبے پر کیے گئے فضائی حملوں میں خواتین اور بچوں سمیت درجنوں فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
حماس کے زیرِ انتظام غزہ کی وزارت صحت نے اتوار کو کہا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران پورے علاقے میں ہلاک ہونے والے 112 افراد کی لاشیں ہسپتالوں میں لائی گئی ہیں اور 173 زخمی بھی ہیں۔
جنگ کے آغاز سے اب تک اس پٹی میں ہلاکتوں کی تعداد 28,176 تک پہنچ گئی ہے۔ وزارت عام شہریوں اور جنگجوؤں میں فرق نہیں کرتی لیکن اس کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔
SEE ALSO: نیتن یاہو: حماس کے جنگ بندی مطالبات مسترد، 'مکمل فتح' تک لڑنے کا عزماسرائیل۔ حماس جنگ سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں حماس کے حملے کے ساتھ شروع ہوئی، جب فلسطینی عسکریت پسندوں نے تقریباً 1,200 افراد کو ہلاک کیا، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے، اور تقریباً 250 کو یرغمال بنا لیا تھا۔
نومبر میں ایک ہفتے کی جنگ بندی کے دوران 240 فلسطینی قیدیوں کے بدلے میں 100 سے زائد یرغمالوں کو رہا کیا گیا تھا۔
حماس نے کہا ہے کہ جب تک اسرائیل اپنے حملے بند نہیں کرتا اور علاقے سے نکل نہیں جاتا وہ مزید کسی یرغمال کو رہا نہیں کرے گا۔ اس نے عمر قید کی سزا کاٹنے والے سینئر عسکریت پسندوں سمیت سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
نیتن یاہو نے سختی سے دونوں مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل "مکمل فتح" اور تمام اسیروں کی واپسی تک لڑے گا۔
( اس رپورٹ میں مواد اے پی سے لیا گیا ہے)