مصر میں صدر حسنی مبارک کے خلاف بغاوت کی پانچویں سالگرہ کے موقعے پر قاہرہ اور اس کے اطراف میں کسی بھی قسم کے احتجاج کو روکنے کے لئے سیکورٹی سخت کردی گئی ہے۔
قاہرہ میں قائم الاحرام سنٹر فار پولیٹکل اینڈ اسٹریٹیجک اسٹیڈیز کے سنیئر محقق، زید اکل کے مطابق، اس سال بڑے پیمانے پر احتجاجی ریلیوں کا امکان نہیں۔ لیکن، اپوزیشن کا چھوٹا سا بھی احتجاج گرفتاریوں اور کشیدگی کا باعث بن سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ انقلابی یا سیاسی قوتیں اور سماجی تحاریک کوئی بھی اس دن سڑکوں پر آنے میں دلچسپی نہیں رکھتی، جس کی کئی وجوہات ہیں۔
ان وجوہات میں حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے پیش بندی کے اقدامات جیسے سیاسی اختلاف رائے رکھنے والوں کو جیل میں ڈالنا، عوامی اجتماع پر پابندی اور مخالف تقاریر پر حالیہ پکڑ دھکڑ، حالیہ ہفتے کے دوران ہزاروں گھروں اور دو ثقافتی اداروں پر چھاپہ مارا گیا اور انٹرنیٹ پر سرگرم افراد کو جیل میں ڈالا گیا۔
ان اقدامات سے پہلے، فیس بک کے ایک صفحے پر ہم 25 جنوری کو مطلق العنانیت کو گرا دیں گے، کی ایک کال دی گئی تھی، جس کو پچاس ہزار لوگوں نے دیکھا اور اپ ڈیٹ کیا۔
زید اکل کے مطابق، بیشتر سابق سرگرم عمل عناصر اس سال گھروں سے باہر نہیں نکلیں گے۔ توقع ہے کہ کالعدم اخوان المسلمین کے کچھ حامی اور سیاسی قیدیوں کے اہل خانہ سخت خطرے کے باوجود، سڑکوں پر آ سکتے ہیں۔
اگر ان کی ریلی چھوٹی رہی تو پرامن گزر جائے گی، بصورت دیگر نہ صرف پولیس کارروائی کر سکتی ہے لیکن عوام میں اشتعال پیدا ہوسکتا ہے۔
بہت سے مصری سنہ 2011 میں احتجاج کرنے والوں پر گزشتہ پانچ برسوں میں افراتفری پھیلانے کا الزام عائد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انھوں نے ملکی معیشت کو تباہ کیا اور اس کی سیکورٹی کے لئے خطرہ پیدا کردیا تھا۔
صدر عبدالفتح السیسی کے حامی موجودہ حکومت کو گزشتہ دو برسوں کے مقابلے میں ملک میں امن و امان قائم کرنے پر سراہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ملکی معیشت کی بحالی کے لئے ابھی انھیں کافی وقت نہیں ملا۔
مصری محقیق کے مطابق، جمہوریت کے حامی چند گروپ جنھوں نے مطلق العنانیت کے خلاف بغاوت میں حصہ لیا تھا، مکمل طور پر دستبردار نہیں ہوئے۔ تاہم، گزشتہ کئی برسوں میں آنے والی سیاسی تبدیلی کے باعث عوامی طور پر کوئی رد عمل دینے میں تعمل سے کام لے رہے ہیں۔ ان کی سماجی تحریک اور سیاسی انقلاب کی حکمت عملی تبدیل ہوچکی ہے اور ان کی نئی حکمت عملی زیادہ محتاط اور پوشیدہ ہے۔