اخوان کے ایک ترجمان احمد عارف نے دعویٰ کیا ہے کہ سرکاری فورسز کی فائرنگ سے اب تک 74 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ مزید 61 افراد اسپتالوں میں مشینوں کے سہارے زندہ ہیں جنہیں ڈاکٹر "ذہنی طور پر مردہ" قرار دے چکے ہیں۔
واشنگٹن —
قبل ازیں بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا ہے کہ معزول صدر محمد مرسی کے حامیوں کے مظاہروں پر مصری فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی فائرنگ کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق بیشتر ہلاکتیں دارالحکومت قاہرہ میں گزشتہ تین ہفتوں سے جاری 'اخوان المسلمون' کے دھرنے کے نزدیک ہوئی ہیں۔
'رائٹرز' نے عینی شاہدین کے حوالے سے کہا ہے کہ فوجی اور پولیس اہلکاروں نے اخوان کے دھرنے کے نزدیک جمع ہونےو الے ہزاروں مظاہرین پر ہفتے کو علی الصباح براہِ راست فائرنگ کی۔
اخوان کے ایک ترجمان احمد عارف نے دعویٰ کیا ہے کہ سرکاری فورسز کی فائرنگ سے اب تک 74 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ مزید 61 افراد اسپتالوں میں مشینوں کے سہارے زندہ ہیں جنہیں ڈاکٹر "ذہنی طور پر مردہ" قرار دے چکے ہیں۔
اخوان کے ترجمان کے بقول مصری فوج اپنے معصوم ہم وطنوں کا خون بہاکر ملک کو 10 سال پیچھے لے گئی ہے۔
'رائٹرز' کے مطابق اس کے ایک رپورٹر نے دارالحکومت کے صرف ایک مردہ خانے میں 36 لاشیں دیکھی ہیں جو تشدد کی حالیہ لہر کا نشانہ بننے والوں کی ہیں۔
محکمہ صحت کے حکام کے مطابق دھرنے کے مقام کے نزدیک واقع دو دیگر اسپتالوں میں بھی 21 لاشیں لائی گئی ہیں۔
مقامی حکام اور ذرائع ابلاغ کے ان دعووں کے برعکس عبوری حکومت کی وزارتِ صحت نے حالیہ تشدد میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 38 بیان کی ہے۔
تشدد کی حالیہ لہر کا آغاز جمعے کو ہوا تھا جسے صدر مرسی کی جماعت 'اخوان المسلمون' نے 'یوم الفرقان' کے عنوان سے منانے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے حامیوں سے بڑی تعداد میں سڑکوں پر آنے کی اپیل کی تھی۔
اس اپیل کے جواب میں محمد مرسی کو برطرف کرنے والے مصری فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی نے بھی مصر کے عوام سے کہا تھا کہ وہ جمعے کو بڑی تعداد میں مظاہرے کرکے "مصری فوج کو تشدد اور دہشت گردی سے نبٹنے کا مینڈیٹ" دیں۔
جمعے کو لاکھوں مصریوں نے محمد مرسی کی حمایت اور مخالفت میں ہونے والے ملک گیر مظاہروں میں شرکت کی تھی۔ لیکن جنرل سیسی کی جانب سے مظاہروں کی اپیل کے بعد زور پکڑنے والی قیاس آرائیوں کے برعکس مظاہرین کے درمیان تصادم کا کوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔
جمعے کو ہونے والے مظاہروں کے دوران میں مصر کےدوسرے بڑے شہر اسکندریہ میں فریقین کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں سات افراد ہلاک ہوئے تھے۔
'نیویارک ٹائمز' کے مطابق دارالحکومت قاہرہ میں پرتشدد واقعات کا سلسلہ جمعے کی رات اس وقت شروع ہوا جب شہر کے نواحی مقام 'نصر سٹی' میں گزشتہ تین ہفتوں سے جمع اخوان کے ہزاروں حامیوں میں سے بعض نے دارالحکو مت کے مشہور 'اکتوبر 6' نامی پل کی جانب بڑھنے کی کوشش کی۔
اخبار کے مطابق مظاہرین کا موقف تھا کہ دھرنے کی جگہ پر لاکھوں لوگ موجود تھے جو گنجائش سے زیادہ ہونے کے باعث نزدیکی علاقوں تک پھیل گئے تھے۔
'نیویارک ٹائمز' نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ پل پر تعینات نامعلوم فوجی اور پولیس اہلکاروں نے اخوان کے حامیوں پر بغیر کسی انتباہ کے براہِ راست فائرنگ کی۔
اخبار نے لکھا ہے کہ پولیس اہلکاروں کے ہمراہ بعض مسلح شہری بھی موجود تھے جنہوں نے محمد مرسی کےحامی مظاہرین کو نشانہ بنایا۔ اخبار نے لکھا ہے کہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں سے بیشتر کے سروں اور سینوں پر گولیاں ماری گئی ہیں جن میں کئی بچے بھی شامل ہیں۔
اخوان کے ایک رہنما جہاد الحداد نے الزام عائد کیا ہے کہ سیکیورٹی اہلکار ان کی جماعت کے کارکنوں کو زخمی نہیں بلکہ قتل کرنے لیے تاک تاک کر نشانہ بنا رہے ہیں۔
اخوان کے مرکزی دھرنے میں شریک کئی افراد نے دعویٰ کیا ہے کہ دھرنے کی طرف آنے والے راستوں کی عمارتوں پر نشانے باز تعینات ہیں جو مظاہرین کے سروں پر گولی مار رہے ہیں۔
دھرنے کے نزدیک قائم کیے گئے ایک عارضی مردہ خانے میں بیشتر لاشیں ایسی ہیں جن کے سر پر دونوں آنکھوں کے درمیان گولی ماری گئی ہے۔
لیکن مصر کی عبوری حکومت کے وزیرِ داخلہ محمد ابراہیم نے دعویٰ کیا ہے کہ مصر کی پولیس مظاہرین کے خلاف صرف آنسو گیس کا استعمال کر رہی ہے۔
انہوں نے اخوان المسلمون پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ سیاسی مفادات کے حصول کے لیے ہلاک شدگان کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر بیان کر رہی ہے۔
وزیرِ داخلہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ معزول صدر محمد مرسی کو جلد ہی اس جیل میں منتقل کردیا جائے گاجہاں ان کے پیش رو حسنی مبارک بھی قید ہیں۔
خیال رہے کہ تین جولائی کی فوجی بغاوت کے بعد سے محمد مرسی فوج کی تحویل میں ہیں اور انہیں نامعلوم مقام پر رکھا گیا ہے۔
مصر کی دوسری بڑی اسلام پسند جماعت 'النور' نے جمعے اور ہفتے کو پیش آنے والے پرتشدد واقعات کو "قتلِ عام" قرار دیتے ہوئے ان کی فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی نگران کیتھرین ایشٹن نے بھی ہفتے کو ہونے والی ہلاکتوں پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے عبوری حکومت سے فوری طور پر پرتشدد واقعات روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
مصر میں برطرف کیے جانے والے صدر محمد مرسی کےحامیوں نے سکیورٹی فورسز کی طرف سے دھرنا ختم کرکے منتشر ہونے کے انتباہ کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنا احتجاج جاری رکھا ہوا ہے۔
اتوار کو صورتحال قدرے پرامن رہی اور کسی بڑی جھڑپ کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق بیشتر ہلاکتیں دارالحکومت قاہرہ میں گزشتہ تین ہفتوں سے جاری 'اخوان المسلمون' کے دھرنے کے نزدیک ہوئی ہیں۔
'رائٹرز' نے عینی شاہدین کے حوالے سے کہا ہے کہ فوجی اور پولیس اہلکاروں نے اخوان کے دھرنے کے نزدیک جمع ہونےو الے ہزاروں مظاہرین پر ہفتے کو علی الصباح براہِ راست فائرنگ کی۔
اخوان کے ایک ترجمان احمد عارف نے دعویٰ کیا ہے کہ سرکاری فورسز کی فائرنگ سے اب تک 74 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ مزید 61 افراد اسپتالوں میں مشینوں کے سہارے زندہ ہیں جنہیں ڈاکٹر "ذہنی طور پر مردہ" قرار دے چکے ہیں۔
اخوان کے ترجمان کے بقول مصری فوج اپنے معصوم ہم وطنوں کا خون بہاکر ملک کو 10 سال پیچھے لے گئی ہے۔
'رائٹرز' کے مطابق اس کے ایک رپورٹر نے دارالحکومت کے صرف ایک مردہ خانے میں 36 لاشیں دیکھی ہیں جو تشدد کی حالیہ لہر کا نشانہ بننے والوں کی ہیں۔
مقامی حکام اور ذرائع ابلاغ کے ان دعووں کے برعکس عبوری حکومت کی وزارتِ صحت نے حالیہ تشدد میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 38 بیان کی ہے۔
تشدد کی حالیہ لہر کا آغاز جمعے کو ہوا تھا جسے صدر مرسی کی جماعت 'اخوان المسلمون' نے 'یوم الفرقان' کے عنوان سے منانے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے حامیوں سے بڑی تعداد میں سڑکوں پر آنے کی اپیل کی تھی۔
اس اپیل کے جواب میں محمد مرسی کو برطرف کرنے والے مصری فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی نے بھی مصر کے عوام سے کہا تھا کہ وہ جمعے کو بڑی تعداد میں مظاہرے کرکے "مصری فوج کو تشدد اور دہشت گردی سے نبٹنے کا مینڈیٹ" دیں۔
جمعے کو لاکھوں مصریوں نے محمد مرسی کی حمایت اور مخالفت میں ہونے والے ملک گیر مظاہروں میں شرکت کی تھی۔ لیکن جنرل سیسی کی جانب سے مظاہروں کی اپیل کے بعد زور پکڑنے والی قیاس آرائیوں کے برعکس مظاہرین کے درمیان تصادم کا کوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔
جمعے کو ہونے والے مظاہروں کے دوران میں مصر کےدوسرے بڑے شہر اسکندریہ میں فریقین کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں سات افراد ہلاک ہوئے تھے۔
'نیویارک ٹائمز' کے مطابق دارالحکومت قاہرہ میں پرتشدد واقعات کا سلسلہ جمعے کی رات اس وقت شروع ہوا جب شہر کے نواحی مقام 'نصر سٹی' میں گزشتہ تین ہفتوں سے جمع اخوان کے ہزاروں حامیوں میں سے بعض نے دارالحکو مت کے مشہور 'اکتوبر 6' نامی پل کی جانب بڑھنے کی کوشش کی۔
اخبار کے مطابق مظاہرین کا موقف تھا کہ دھرنے کی جگہ پر لاکھوں لوگ موجود تھے جو گنجائش سے زیادہ ہونے کے باعث نزدیکی علاقوں تک پھیل گئے تھے۔
'نیویارک ٹائمز' نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ پل پر تعینات نامعلوم فوجی اور پولیس اہلکاروں نے اخوان کے حامیوں پر بغیر کسی انتباہ کے براہِ راست فائرنگ کی۔
اخبار نے لکھا ہے کہ پولیس اہلکاروں کے ہمراہ بعض مسلح شہری بھی موجود تھے جنہوں نے محمد مرسی کےحامی مظاہرین کو نشانہ بنایا۔ اخبار نے لکھا ہے کہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں سے بیشتر کے سروں اور سینوں پر گولیاں ماری گئی ہیں جن میں کئی بچے بھی شامل ہیں۔
اخوان کے ایک رہنما جہاد الحداد نے الزام عائد کیا ہے کہ سیکیورٹی اہلکار ان کی جماعت کے کارکنوں کو زخمی نہیں بلکہ قتل کرنے لیے تاک تاک کر نشانہ بنا رہے ہیں۔
اخوان کے مرکزی دھرنے میں شریک کئی افراد نے دعویٰ کیا ہے کہ دھرنے کی طرف آنے والے راستوں کی عمارتوں پر نشانے باز تعینات ہیں جو مظاہرین کے سروں پر گولی مار رہے ہیں۔
دھرنے کے نزدیک قائم کیے گئے ایک عارضی مردہ خانے میں بیشتر لاشیں ایسی ہیں جن کے سر پر دونوں آنکھوں کے درمیان گولی ماری گئی ہے۔
لیکن مصر کی عبوری حکومت کے وزیرِ داخلہ محمد ابراہیم نے دعویٰ کیا ہے کہ مصر کی پولیس مظاہرین کے خلاف صرف آنسو گیس کا استعمال کر رہی ہے۔
انہوں نے اخوان المسلمون پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ سیاسی مفادات کے حصول کے لیے ہلاک شدگان کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر بیان کر رہی ہے۔
وزیرِ داخلہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ معزول صدر محمد مرسی کو جلد ہی اس جیل میں منتقل کردیا جائے گاجہاں ان کے پیش رو حسنی مبارک بھی قید ہیں۔
خیال رہے کہ تین جولائی کی فوجی بغاوت کے بعد سے محمد مرسی فوج کی تحویل میں ہیں اور انہیں نامعلوم مقام پر رکھا گیا ہے۔
مصر کی دوسری بڑی اسلام پسند جماعت 'النور' نے جمعے اور ہفتے کو پیش آنے والے پرتشدد واقعات کو "قتلِ عام" قرار دیتے ہوئے ان کی فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی نگران کیتھرین ایشٹن نے بھی ہفتے کو ہونے والی ہلاکتوں پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے عبوری حکومت سے فوری طور پر پرتشدد واقعات روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔