مصر کی تجویز کردہ جنگ بندی کی شرائط ماننے سے 'حماس' کے انکار کے بعد اسرائیل نے غزہ پر اپنے حملوں میں مزید شدت لانے کا اعلان کیا ہے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو نے منگل کو ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے تنازع کا "سفارتی حل" ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی لیکن 'حماس' نے اسرائیل کو "مجبور کردیا ہے کہ وہ غزہ پر اپنے حملوں کا دائرہ بڑھائے اور ان میں شدت لائے۔"
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ سکیورٹی کابینہ کی جانب سے منگل کو مصر کے تجویز کردہ جنگ بندی کے منصوبے کی منظوری کے بعد اسرائیلی فوج نے چھ گھنٹے تک غزہ پر اپنے حملے روکے رکھے۔
لیکن، اسرائیلی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ جنگ بندی کے عرصے کے دوران اسرائیل پر 'حماس' کے راکٹ حملے جاری رہے جس کے بعد غزہ پر بمباری کا سلسلہ دوبارہ شروع کردیا گیاہے۔
اسرائیلی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ جنگ بندی کے عرصے کےبعد سے اب تک غزہ سے اسرائیلی علاقوں پر لگ بھگ 123 راکٹ فائر کیے جاچکے ہیں جن سے ایریز کی سرحدی کراسنگ کے نزدیک ایک اسرائیلی شہری ہلاک ہوگیا ہے۔
غزہ پر اسرائیلی بمباری کے جواب میں گزشتہ ہفتے سے اسرائیل پر جاری 'حماس' کے راکٹ حملوں میں ہونے والی یہ پہلی ہلاکت ہے۔
اس کے برعکس گزشتہ آٹھ روز سے جاری اسرائیلی بمباری سے غزہ میں اب تک 194 فلسطینی ہلاک ہوچکے ہیں جن میں درجنوں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔
مصر کی جانب سے پیش کیے جانے والے منصوبے کا اطلاق منگل کی صبح نو بجے سے ہونا تھا جس کے 12 گھنٹوں کے اندر علاقے میں جنگ بندی موثر ہوجانی تھی۔
منصوبے کے مطابق جنگ بندی کے موثر ہونے کے 48 گھنٹوں کے اندر اسرائیل اور 'حماس' کے نمائندے قاہرہ میں جنگ بندی کی شرائط کے تعین کے لیے مذاکرات کا آغاز کرنا تھا۔
لیکن مجوزہ منصوبے کے تحت ہونے والی بات چیت کے ایجنڈے میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی، غزہ کی مصر کے ساتھ سرحد کھولنے اور اشیائے ضروریہ کی علاقے میں ترسیل سمیت 'حماس' کا کوئی بھی مطالبہ شامل نہیں کیا گیا تھا۔
اس سے قبل 'حماس' کے سیاسی ونگ کے ایک رہنما موسیٰ ابو مرزوق نے کہا تھا کہ ان کی تحریک نے تاحال مصر کے تجویز کردہ منصوبے کو قبول یا رد کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔
مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں موجود موسیٰ ابو مرزوق نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ کہ وہ جنگ بندی اسی صورت میں قبول کریں گے جب مصر اور اسرائیل کی جانب سے غزہ کی ناکہ بندی میں نرمی کی جائے گی۔
لیکن 'حماس' کی سیاسی قیادت کے بیانات کے برعکس تنظیم کے عسکری بازو 'عزالدین القسام بریگیڈ' نے مصری منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے اسرائیل پر اپنے حملوں میں اضافہ کرنے اور شدت لانے کا اعلان کردیا تھا۔
'حماس' کی عسکری تنظیم کا کہنا تھا کہ مصر کے تجویز کردہ جنگ بندی کے منصوبے میں ان کا کوئی مطالبہ شامل نہیں کیا گیا جس کے باعث وہ اسے تسلیم نہیں کرتے۔
غزہ میں موجود 'حماس' کے ایک ترجمان سمیع ابو زہری نے بھی واضح کیا ہے کہ 'حماس' کے ہتھیار اس وقت تک خاموش نہیں ہوں گے جب تک تنظیم کے مطالبات پورے نہیں کردیے جاتے۔
'حماس' کے علاوہ غزہ میں سرگرم دیگر مسلح تنظیموں – اسلامک جہاد، پاپولر فرنٹ فار لبریشن آف فلسطین اور ڈیموکریٹک فرنٹ فار لبریشن آف فلسطین – نے بھی مصر کے تجویز کردہ جنگ بندی کے منصوبے کو مسترد کردیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق ایک فلسطینی تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ مصر نے جان بوجھ کر جنگ بندی کے مجوزہ منصوبے میں 'حماس' کا کوئی مطالبہ بھی شامل نہیں کیا تاکہ فلسطینی اسے مسترد کرکے عالمی برادری کی لعن طعن کا نشانہ بنیں۔
دریں اثنا امریکہ نے 'حماس' اور اسرائیل کی لڑائی میں عام شہریوں کی ہلاکت پر ایک بار پھر گہری تشویش ظاہر کی ہے۔
'وہائٹ ہاؤس' کے ترجمان جوش ارنسٹ نے کہا ہے کہ غزہ سے اسرائیل پر کیے جانے والے راکٹ حملے ہر صورت روکے جانے چاہئیں۔
امریکی صدر کے ترجمان نے منگل کو صحافیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں جاری تصادم اور تشدد پہلے ہی بہت سے معصوم شہریوں کی جانیں لے چکا ہے اور اب یہ سلسلہ بند ہونا چاہیئے۔