بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی انتظامیہ کی طرف سے 80 سے زائد کمپنیوں کو انٹرنیٹ استعمال کرنے کی مشروط اجازت دے دی گئی ہے۔
جموں کشمیر انتظامیہ اور کمپنیوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ہے جس کے مطابق یہ کمپنیاں اپنے انٹرنیٹ کا ڈیٹا سیکیورٹی اداروں کے طلب کرنے پر شیئر کرنے کی پابند ہوں گی۔
بھارتی اخبار 'اکنامک ٹائمز' کے مطابق جموں و کشمیر کی انتظامیہ نے جن کمپنیوں کو انٹرنیٹ استعمال کرنے کی اجازت دی ہے وہ صرف کاروباری مقاصد کے لیے انٹرنیٹ استعمال کریں گی اور وہ کسی بھی قسم کی تصاویر یا ویڈیوز اپ لوڈ نہیں کرسکیں گی۔
اخبار کے مطابق یہ کمپنیاں صرف الاٹ کردہ آئی پی ایڈریس پر ہی انٹرنیٹ کی سہولت استعمال کرسکیں گی اور سماجی رابطوں کی سائٹس، پراکسیز، وی پی اینز اور وائی فائی کے استعمال پر بھی پابندی عائد ہوگی۔
علاوہ ازیں معاہدے کے مطابق کمپنیوں کو نیٹ ورک پر موجود کمپیوٹرز کی یو ایس بی پورٹس استعمال کرنے کی اجازت بھی نہیں ہوگی۔
معاہدے کے مطابق انٹرنیٹ کے کسی بھی قسم کے غلط استعمال کی ذمہ دار مکمل طور پر مذکورہ کمپنیاں ہوں گی۔
SEE ALSO: کشمیر کے ذکر پر امریکی ڈرامے کی ایک قسط بھارت میں غائبیاد رہے کہ بھارت نے رواں سال پانچ اگست کو آرٹیکل 370 ختم کرتے ہوئے کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کر دی تھی۔ اس اقدام سے قبل بھارت نے فوجی دستے کشمیر میں تعینات کر دیے تھے۔
رواں ماہ 21 نومبر کو بھارت کی سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر کی حکومت کو آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد عائد پابندیوں سے متعلق ہر سوال کا جواب دینا ہو گا۔
جمعرات کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں مواصلاتی رابطوں اور دیگر پابندیوں کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران عدالت نے سرکاری وکیل سے کہا تھا کہ وہ تمام سوالات کے جواب تفصیل سے دیں۔
یاد رہے کہ جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کیے جانے کے بعد بھارت کی حکومت نے جموں و کشمیر میں نقل و حمل پر پابندیوں کے علاوہ مواصلاتی رابطے بھی منقطع کر دیے تھے اور مزاحمتی تنظیموں کے اہم رہنماؤں کو بھی نظر بند کر دیا گیا تھا۔
پاکستان نے ان بھارتی اقدامات کو مسترد کرتے ہوئے جموں و کشمیر میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کیے تھے۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں کہا تھا کہ بھارت نے اس اقدام کے ذریعے 80 لاکھ سے زائد کشمیری شہریوں کو گھروں میں محصور کر دیا ہے۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تنازع کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کو بھارت نے مسترد کر دیا تھا۔
بھارت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ پاکستان اور بھارت شملہ اور لاہور معاہدوں کے تحت دو طرفہ امور باہمی مذاکرات سے ہی طے کرنے کے پابند ہیں۔ لہذا، کسی تیسرے فریق کی مداخلت کی ضرورت نہیں۔