لاهور ہائی کورٹ کی طرف سے عام انتخابات کے لئے ارکانِ پارلیمنٹ کی جانب سے تیار کردہ کاغذات نامزدگی کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد الیکشن کمشن آف پاکستان نے کاغذات نامزدگی کا اجرا روک دیا ہے۔ کاغذات نامزدگی کا اجرا دو جون سے شروع ہونا تھا۔
الیکشن کمشن کے مطابق اس سلسلہ میں لاهور ہائی کورٹ کی جانب سے آنے والے فیصلہ کے مطابق الیکشن 2018ء کے لیے کاغذات نامزدگی کا اجرا روک دیا گیا ہے اور اس بارے میں ہنگامی اجلاس طلب کرلیا گیاہے جس میں عدالتی فیصلے کی روشنی میں فارم اے اور بی میں تبدیلیوں کا امکان ہے۔
اس اقدام کے باعث انتخابات کے شیڈول پر عارضی طور پر عمل درآمد روک دیا گیا ہے۔ الیکشن کمشن کی طرف سے جاری احکامات کے مطابق تمام ریٹرننگ افسران کو نامزدگی فارم جاری کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
الیکشن کمشن کے جاری بیان کے مطابق اب عدالتی حکم کی روشنی میں نیا فارم تیار ہو گا اور کاغذاتِ نامزدگی فارم کے اجرا اور وصولی کی تاریخوں میں ردوبدل پر بھی غور ہو گا۔
حکومت نے الیکشن کمشن کے اعتراضات رد کرتے ہوئے نیا کاغذات نامزدگی فارم تیار کیا تھا جس میں قرضوں، مقدمات، دوہری شہریت، تین سالہ ٹیکس کی معلومات، تعلیم، پیشہ اور ڈیفالٹر کے کالم ختم کر دیئے گئے تھے۔ عدالت نے فارم میں کی گئی تمام تبدیلیوں کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
لاهور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ اے ملک نے آئینی ماہر سعد رسول کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سنایا۔ سعد رسول نے الیکشن ایکٹ کی دفعہ 60، 110 اور 137 کو چیلنج کیا تھا۔
کاغذات نامزدگی میں غیر ملکی آمدن، زیرِ کفالت افراد کی تفصیلات چھپانے کا اقدام، مقدمات کا ریکارڈ، ٹیکس ڈیفالٹ چھپانے کا اقدام، قرضہ نادہندگی، دوہری شہریت، یوٹیلٹی ڈیفالٹ، پاسپورٹس چھپانے کا اقدام اور کاغذات نامزدگی میں مجرمانہ سرگرمیاں چھپانے کا اقدام بھی کالعدم کردیا گیا ہے۔
عدالت نے پارلیمنٹ کے تیار کردہ کاغذات نامزدگی آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمشن کو نئے کاغذات نامزدگی تیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ نئے کاغذات نامزدگی میں آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تقاضے دوبارہ شامل کئے جائیں۔
اس صورت حال کے باعث بعض ماہرین انتخابات کے التوا کی طرف اشارہ کررہے ہیں لیکن الیکشن کمشن کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ انتخابات مقررہ وقت پر ہی ہوں گے۔