بلوچستان میں حکام کا کہنا ہے کہ ضلع ژوب میں رواں ماہ کے دوران نمونیا اور غذائیت کی کمی کی وجہ سے 11 کم عمر بچے ہلاک ہو گئے ہیں جب کہ اس مرض سے متاثر ہونے والے سیکڑوں بچوں کو طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔
ڈپٹی کمشنر محمد عظیم نے وائس اف امر یکہ کو بتایا کہ ضلع ژوب کے ضلع لورالائی سے متصل علاقے مر غہ کبزئی، تنگ سر میں دسمبر کے آغاز سے سیکڑوں بچے نمونیا سے متاثر ہوئے جن میں سے 11 اب تک زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس مرض سے متاثر ہونے والے بچوں سے متعلق سروے کے لیے طبی ٹیم کو علاقے میں بھیجا گیا اور اُن کے بقول اس ٹیم نے 160 گھروں کا سروے کرنے کے بعد یہ رپورٹ دی کہ 350 سے زائد بچے نمونیا کے مرض سے متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ غذائیت کی کمی کا بھی شکار ہیں۔
محمد عظیم نے کہا کہ متاثرہ بچوں کو طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے اور صورتحال کے مکمل جائزے کے لیے ضلع کے دیگر علاقوں کا بھی سروے بھی کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نمونیا سے متاثرہ بچوں میں سے 25 کی حالت کافی نازک ہے جنہیں ضلعی اسپتال میں طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔
ںمونیا اور غذائیت کی کمی کا شکار بچوں کا تعلق زیادہ تر ایک ہی یونین کونسل سے ہے جس کی آبادی لگ بھگ 10 ہزار بتائی جاتی ہے جن میں زیادہ تر افراد غر بت کا شکار ہیں۔
ڈی سی عظیم کاکڑ کے بقول لوگوں کی مدد کے لیے صوبائی حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے امدادی سامان علاقے میں پہنچا دیا گیا ہے جس کی تقسیم شروع ہو گئی ہے۔
مر غہ کبزئی میں سنگ مر مر کے بڑے ذخائر ہیں اسی علاقے میں سکیورٹی فورسز کی مدد سے کاسہ ماربل پراجیکٹ بھی شروع کیا گیا ہے لیکن اس کی آمدن سے بظاہر علاقے کی مقامی آبادی کو فی الحال کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔
صوبائی حکام کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں بچوں میں غذائیت کی کمی کا تناسب 16 فیصد ہے جو ملک میں دیگر تین صوبوں سے زیادہ ہے۔
صوبائی سیکرٹری صحت انوارالحق بلوچ کا کہنا ہے کہ بچوں میں غذائیت کی کمی بلوچستان کا ایک بڑا مسئلہ ہے صوبائی حکومت نے اس حوالے سے آسٹر یلیا اور دیگر ملٹی ڈونر ٹر سٹ فنڈ کے تعاون سے ایک اعشاریہ چار ارب روپے کی مالیت کا ایک پراجیکٹ شروع کیا ہے، جس پر صوبے میں غر بت سے انتہائی متاثرہ سات اضلاع میں عمل ہو رہا ہے، صوبائی حکومت مزید اقدامات بھی کر رہی ہے ۔
ضلع ژوب کی شہر ی ایکشن کمیٹی صحت عامہ کے جنرل سیکرٹری عبدالغفور مندوخیل نے حکام کی طرف سے صحت عامہ پر اربوں روپے خرچ کرنے کے دعوﺅں کو غلط قرار دیا اور کہا کہ صوبائی حکومت ہر سالانہ بجٹ میں اربوں روپے صحت عامہ کے لیے مختص کرتی ہے لیکن اُن کا غر یب لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں ہو تا۔ زیادہ تر یہ رقم بدعنوانی کی نذر ہو جاتی ہے، اُن کے بقول صوبے کے دور دراز اضلاع کے شہری اور دیہی علاقوں میں جو بنیادی صحت عامہ کے مر اکز قائم کیے گئے ہیں وہ زیادہ تر بند ہیں۔
قدرتی وسائل سے مالامال اس صوبے کی آبادی تقریباً ایک کر وڑ کے لگ بھگ ہے حال ہی میں ایک غیر سرکاری ادارے کی طرف سے کئے گئے سر وے میں بلوچستان میں غر بت کی شرح 71 فیصد بتائی گئی ہے۔ رقبے کے لحاظ سے ملک کے اس سب سے بڑے صوبے میں خانہ بدوشوں کی بھی ایک بڑی تعداد آبادی کا حصہ ہے۔