امریکہ کی فوج نے اعتراف کیا ہے کہ آٹھ جنوری کو عراق میں عین الاسد بیس پر ایران کے میزائل حملوں میں اس کے 11 اہلکار زخمی ہوئے تھے جنہیں طبی امداد دی جا رہی ہے۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کے ترجمان کیپٹن بل اربن نے جمعرات کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ آٹھ جنوری کو ایرانی حملے میں کوئی امریکی اہلکار ہلاک نہیں ہوا۔ البتہ، دھماکوں کی وجہ سے متعدد اہلکاروں کو "ذہنی چوٹ" آئی تھی جو اب بھی زیرِ علاج ہیں۔
انہوں نے کہا کہ احتیاطی تدابیر کے پیش نظر بعض اہلکاروں کو جرمنی اور کویت میں موجود امریکی تنصیبات پہنچا دیا گیا ہے، جہاں ان کی اسکریننگ کی جا رہی ہے۔
امریکی سینٹرل کمانڈ کا یہ بیان امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی فوج کے ایرانی حملے کے فوراً بعد دیے جانے والے بیانات سے متصادم ہے جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایران کے حملے میں امریکہ کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔
تین جنوری کو امریکی ڈرون حملے میں ایران کی فوج پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے جواب میں ایران نے آٹھ جنوری کو عراق میں امریکہ کی دو فوجی تنصیبات پر ایک درجن سے زائد بیلسٹک میزائل داغے تھے۔
SEE ALSO: ایرانی حملے میں معجزانہ طور پر محفوظ رہے: امریکی فوجیوں کا بیانصدر ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں ایرانی حملے سے متعلق کہا تھا 'آل از ویل'۔ تاہم، حملے کے چند روز بعد عین الاسد بیس کی کئی تصاویر منظرِ عام پر آئی تھیں جن میں امریکی تنصیب کو پہنچنے والا نقصان دیکھا جا سکتا تھا۔
جمعرات کو امریکی سینٹرل کمانڈ نے اعتراف کیا کہ ایران کے حملے میں 11 فوجی اہلکار زخمی ہوئے، جنہیں مکمل صحت یابی کے بعد دوبارہ عراق میں تعینات کیا جا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ عراق کے صوبہ انبار میں امریکہ کے لگ بھگ 1500 فوجی تعینات ہیں جب کہ عراق میں موجود دیگر تنصیبات پر امریکہ کے علاوہ اتحادی ملکوں کے فوجی بھی موجود ہیں۔
عین الاسد بیس پر موجود امریکی فضائیہ کی افسر لیفٹننٹ کرنل اسٹیکی کولیمین نے چند روز قبل صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ "یہ کسی معجزے سے کم نہیں کہ ایرانی حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ یہ کون سوچ سکتا تھا کہ ہم پر بیلسٹک میزائلوں سے حملہ ہو گا اور ہم اس میں محفوظ رہیں گے۔"
لیفٹننٹ کرنل کولیمین کا مزید کہنا تھا کہ ایران کے میزائل حملوں سے قبل ہم نے سنا تھا کہ ملیشیا کی جانب سے ممکنہ طور پر راکٹ داغے جا سکتے ہیں، جس کا ہمیں کوئی خوف نہیں تھا۔ لیکن، بیلسٹک میزائلوں سے حملہ واقعی حیران کن تھا۔
ایران کے حملے کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران تہران کے خلاف فوجی کارروائی کے بجائے اس پر مزید اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔