پیر کے روز امریکی عہدے داروں نے بتایا کہ اردن میں اختتام ہفتہ ایک امریکی اڈے پر امریکی فورسز ایک مہلک ڈرون حملے کو روکنے میں بظاہر اس لیے ناکام رہیں کیوں کہ ڈرون ایک ایسے وقت میں تنصیب کی جانب آیا جب ایک امریکی ڈرون بھی اسی وقت اڈے کی طرف واپس لوٹ رہا تھا۔
اس کے نتیجے میں یہ ابہام پیدا ہو گیا کہ آیا وہ غیر شناخت شدہ ڈرون کسی دوست کی طرف سے آ رہا تھا یا دشمن کی طرف سے۔
پیر کے روز دو امریکی عہدے داروں نے بتایا کہ اردن میں جس دشمن ڈرون نے تین امریکی فوجیوں کو ہلاک اور درجنوں کو زخمی کیا تھا، اسے ممکن ہے عین اسی وقت فضا میں موجود ایک امریکی تنصیب کی طرف واپس آتا ہوا امریکی ڈرون سمجھ لیا گیا ہو اور اسے غلطی سے گزرنے دیا گیا ہو۔
ان عہدے داروں کی ایک ابتدائی رپورٹ کے مطابق، جنہوں نے اپنا نام خفیہ رکھنے پر اصرار کیا، اس وقت جب ایک دشمن ڈرون کم بلندی پر پرواز کر رہا تھا، ایک امریکی ڈرون بھی فضا میں موجود تھا، جو ’ٹاور 22‘ نامی، ایک چھوٹی صحرائی تنصیب کی جانب واپس آ رہا تھا۔
نتیجتاً اس دشمن ڈرون کو مار گرانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی جس نے اتوار کی صبح اس بیرونی چوکی کو نشانہ بنایا۔
SEE ALSO: اردن میں ڈرون حملے میں تین امریکی فوجی ہلاک،بائیڈن جوابی کارروائی کے لیے پرعزمڈرون حملے میں ایک ٹریلر کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا جس میں فوجی سوئے ہوئے تھے ۔جب کہ ارد گرد کے ٹریلرز کو دھماکے اور اڑتے ہوئے ملبے سے محدود نقصان ہوا۔
عہدے داروں نے کہا کہ 34 زخمی فوجیوں میں سے بیشتر کو زخم، دماغ میں چوٹیں اور اسی طرح کے زخم آئے۔ ان میں سے آٹھ زخمیوں کا طبی طریقے سے انخلا کیا گیا اور تین کو جرمنی کے Landstuhl میڈیکل سینٹر منتقل کیا گیا۔ عملے کے جس رکن کو شدید زخم آئے تھے اس کی حالت نازک لیکن مستحکم ہے۔
ڈرونز سے متعلق ابتدائی نتائج سب سے پہلے وال اسٹریٹ جرنل نے رپورٹ کیے تھے۔ وائٹ ہاؤس نے اس رپورٹ پر تبصرے سے انکار کر دیا۔
اس بارے میں وضاحت سے قبل وائٹ ہاؤس نے پیر کو کہا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہ رہا اگرچہ صدر بائیڈن نے جوابی کارروائی کا عزم ظاہر کیا تھا۔
ڈیمو کریٹک انتظامیہ کا خیال ہے کہ اس حملے کے پس پشت ایران تھا۔ صدر بائیڈن نے تازہ ترین صورت حال پر گفتگو کے لیے وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کی ٹیم کے ارکان سے ملاقات کی۔
نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا، "اس کے کوئی آسان جواب نہیں ہیں، اسی لیے صدر اپنے سامنے موجود آپشنز کا جائزہ لینے کے لیے قومی سلامتی کی ٹیم سے ملاقات کر رہے ہیں۔"
SEE ALSO: امریکہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا: وائٹ ہاؤس کا اردن حملے پر ردعملایران کا موقف
ایران نے پیر کے روز اس بات کی تردید کی کہ وہ اردن میں کیے جانے والے حملے میں ملوث تھا۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا نے وزارت خارجہ کے ترجمان نصر کنعانی کے حوالے سے بتایا کہ،” یہ دعوے خطے میں زمینی حقائق کو پلٹنے کے لیے مخصوص سیاسی مقاصد سے کیے گئے ہیں۔ “
دفاع سے متعلق ایک امریکی عہدے دار نے کہا کہ امریکہ کو ابھی اس بارے میں شواہد کا پتہ چلانا ہے کہ ایران نے اس حملے کو ڈائریکٹ نہیں کیا تھا۔
اردن میں قائم اس امریکی فوجی اڈے ٹاور 22 کے بارے میں عوامی سطح پر بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔ البتہ 'ٹاور 22' اردن کے انتہائی شمال مغرب میں شام اور عراق کی سرحد کے بالکل قریب واقع ہے۔
یہ مقام اسٹرٹیجک لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ کیوں کہ یہاں سے تین ممالک اردن، عراق اور شام کے حالات پر نظر رکھنا اور ان علاقوں میں مدد فراہم کرنا انتہائی آسان ہے۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔