صدر رجب طیب اردوان نے ترکی میں آزادی صحافت کے ریکارڈ پر بین الاقوامی تنقید کو پس پشت ڈالتے ہوئے امریکی نیوز چینل سی بی ایس کو بتایا ہے کہ ان کے ملک میں میڈیا نمایاں طور پر آزاد ہے۔
لیکن اردوان کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب اسی ماہ ترکی میں کئی صحافی اپنے خلاف دائر مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
ان میں سے ایک صحافی اور رپوٹرز ود آوٹ بارڈرز (RSF) کے نمائندے، ایرول اندرواولو گزشتہ ماہ 30 ستمبر کو ایک ایسے مقدمے میں دوسری بار عدالت میں پیش ہوئے، جو ان پر 2016ء میں ایک کرد اخبار 'اوزگور گوندیم' کے ساتھ اظہار یک جہتی کی ایک مہم میں شرکت کی وجہ سے قائم کیا گیا ہے۔
اندرواولو نے وی او اے کو بتایا کہ، "ترکی اگر دنیا بھر میں نہیں تو کم از کم یورپ میں صحافیوں کی گرفتاری کے لئےانتہائی مشکل ملکوں میں سے ایک ہے''۔
اندرواولو نے کہا کہ صحافیوں کو ، جن کے بارے میں یہ گمان ہو کہ وہ حکومت مخالف جماعتوں کے حامی ہیں، گرفتاریوں کے ساتھ ساتھ اکثر اوقات دہشت گرد تنظیموں کی مدد یا ان کے پراپیگنڈے کے الزامات کی بنا پر پریس کارڈ حاصل کرنے میں مشکلات درپیش ہوتی ہیں، ریڈیو اور ٹی وی کو ریگولیٹ کرنے والی سپریم کونسل RTUK) ) حکومت پرتنقید کرنے والے ٹی وی چینلز پر جرمانے عائد کرتی ہے اور حزب اختلاف کے اخبارات حکومت کے اشتہارات سے محروم ہو چکے ہیں۔
لیکن امریکی ٹیلی ویژن چینل کو انٹرویو میں ترک صدر نے کہا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے ان کی جتنی بھی بات چیت ہوئی ہے، اس میں ترکی میں صحافیوں کے ساتھ برتاؤ پر کوئی بات نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ وہ ترکی میں صحافیوں کی گرفتاریوں سے متعلق صحافتی تنظیموں کی طرف سے پیش کئے گئے دستاویزی شواہد اور جائزوں کے نتائج کو قبول نہیں کرتے۔
طیب اردوان نے اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ" ہمیں آزدیوں کے حوالے سے کسی نوعیت کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ ترکی اس حوالے سے نمایاں طور پر آزاد ہے۔"
وائس آف امریکہ کے نمائندے کی جانب سےترکی کے محکمہ اطلاعات سے کسی ردعمل کے لئے رابطہ کرنے پر انہیں ایک فارم بھرنے کو کہا گیا تھا جس میں نمائندے کی ذاتی معلومات مثلاً ایڈریس، تاریخ پیدائش اور شناختی کارڈ نمبر طلب کی گئی تھیں۔
رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز اور نیویارک میں قائم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس جیسے میڈیا کے حقوق سے متعلق اداروں نے ترکی میں گزشتہ پانچ برسوں کے دوران سینکڑوں گرفتاریوں اور میڈیا اداروں کے خلاف دائر کئے گئے مقدمات کے بارے میں دستاویزی ثبوت فراہم کئے ہیں۔
اندرواولو نے کہا کہ اس وجہ سے ہمارا مطمع نظر صدر اردوان جیسا نہیں ہو سکتا، ہم اپنے شعبے میں بہت سے مسائل دیکھ رہے ہیں۔
SEE ALSO: امن کا نوبیل انعام مشترکہ طور پر دو صحافیوں کے نامترک روزنامے، 'ایورینسل' کے نیوز ایڈیٹر گورکیم گورکیم کائناسی کا بھی یہی خیال ہے کہ گرفتاریاں اور مقدمات اردوان کے موقف کے برعکس تصویر پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے وی او اے کو ای میل کے ذریعے بتایا کہ، "صحافیوں کے خلاف مقدمات، اخبارات پر جرمانے اور سینسرشپ کے قوانین پریس کی آزادی کے بارے میں حکومت کے ریکارڈ کو پوری طرح عیاں کرتے ہیں۔
تاہم، کچھ دوسرے صحافیوں کا کہنا ہے کہ ترکی کے ریکارڈ کو 2016 میں ہونے والی ناکام بغاوت کے تناظر میں دیکھا جانا چاہئے۔
اخبار صباح اور اس کے انگریزی ایڈیشن، ڈیلی صباح کی کالم نگار، ہلال کپلان کا کہنا ہے کہ ترکی میں 2016 کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد، جس کے نتیجے میں 250 سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے تھے، ترکی میں آزادیوں کی صورتحال کو ملک کے مخصوص حالات کے تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔