ترک صدر رجب طیب اردوان نے شمالی عراق میں 13 اغوا شدہ ترکوں کی ہلاکتوں کے سلسلے میں نیٹو کے اتحادی ملک امریکہ پر دہشت گردوں کی مدد کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ انہوں نے ان ہلاکتوں کے بارے میں، جس کا الزام انقرہ، کرد عسکریت پسندو ں پر عائد کرتا ہے، امریکی محکمہ خارجہ کے ایک بیان کو مذاق قرار دیا ہے۔
پیر کے روز اردوان نے امریکہ کے ایک بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے کہا ہے کہ اس نے دہشت گردوں کی مدد نہیں کی۔ اردواں نے الزام لگایا کہ حقیقت یہ ہے امریکہ ان کی طرف اور ان کے پیچھے تھا۔ دہشت گردوں سے ان کی مراد کردستان ورکرز پارٹی تھی جو جنوب مشرقی ترکی میں عشروں سے شورش جاری رکھے ہوئے ہے۔
اردوان نے یہ بات امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کے اس بیان کے ایک روز بعد کی کہ اگر 'پی کے کے' کے ہاتھوں ترک شہریوں کی ہلاکتوں کی تصدیق ہوتی ہے تو ہم اس کارروائی کی سخت ترین مذمت کرتے ہیں۔
امریکہ، یورپی یونین اور ترکی، 'پی کے کے' کو ایک دہشت گرد تنظیم سمجھتے ہیں۔
پیر کے روز بعد میں امریکی ترجمان نے ایک اور بیان میں کہا کہ وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے اپنے ترک ہم منصب میولوت جاووشوگلو سے فون پر بات کی اور شمالی عراق میں ترک یرغمالوں کی ہلاکتوں پر تعزیت کا اظہار کیا۔
اس سے قبل امریکہ نے شمالی عراق میں کرد عسکریت پسندوں کی طرف سے 13 ترک شہریوں کو ہلاک کرنے کی مذمت کی تھی۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اتوار کے روز ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکہ نے عراق کے کردستان علاقے میں ترک شہریوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ہم اپنے نیٹو اتحادی ترکی کے ساتھ ہیں اور حالیہ لڑائی میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین سے اظہار تعزیت کرتے ہیں۔
ترکی کے وزیر دفاع ہولوسی اکار نے اتوار کے روز کہا تھا کہ ان افراد کو کردستان ورکرز پارٹی یا پی کے کے، کے ارکان نے اغوا کرکے قتل کیا تھا۔ اکار نے بتایا کہ پی کے کے، کے خلاف کارروائی کے دوران ان افراد کی لاشیں ترکی عراق سرحد کے قریب واقع گارا کے علاقے میں ملی ہیں۔ اس کارروائی میں ترک فورسز نے 48 عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
پی کے کے، کی ایک ویب سائٹ پر ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کی تحویل میں ترکی کے انٹیلی جنس، پولیس اور فوجی اہلکاروں سمیت جنگی قیدی موجود ہیں، اور لڑائی کے نتیجے میں یہ افراد مارے گئے ہیں۔
ترکی، امریکہ اور یوروپی یونین نے پی کے کے، کو ایک دہشت گرد گروہ کے طور پر نامزد کیا ہوا ہے۔ کرد اکثریتی جنوب مشرقی ترکی میں کردوں کی مسلح شورش کے آغاز سےاب تک ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
امریکہ نے دولت اسلامیہ کے خلاف لڑائی میں شام کی کرد ملیشیا وائے پی جی کی حمایت کی تھی، جسے ترکی کردستان ورکرز پارٹی یا پی کے کے کی شاخ قرار دیتا ہے۔
امریکہ کا موقف ہے کہ سیرین کرد ملیشیا یا وائے پی جی اور کردستان ورکرز پارٹی یا پی کے کے کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن ترکی مطالبہ کرتا ہے کہ امریکہ کو واضح کرنا چاہئے کہ اس کی حمایت کس کے ساتھ ہے۔