ترکی کے وزیرِاعظم رجب طیب ایردوان نے ملک کے آئندہ صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کردیا ہے۔
منگل کو دارالحکومت انقرہ میں ہونے والے ایک اجلاس میں ترکی کی حکمران جماعت 'اے کے پارٹی' کے نائب چیئرمین مہمت علی شاہین نے وزیرِاعظم ایردوان کو اگست میں ہونے والے صدارتی انتخاب کے لیے پارٹی کا امیدوار نامزد کرنے کا اعلان کیا۔
انقرہ کے ایک آڈیٹوریم میں ہونے والے اس اجلاس میں حکمران جماعت کی قیادت، حکومتی وزرا اور ملک بھر سے ہزاروں عہدیدار شریک تھے جنہوں نے وزیرِاعظم کی نامزدگی کے اعلان کا نعروں اور تالیوں سے پرجوش خیر مقدم کیا۔
نامزدگی کے اعلان کے بعد کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے گزشتہ 11 برسوں سے وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر فائض ایردوان نے کہا کہ وہ اللہ اور عوام کے لیے سیاست میں آئے تھے اور انہی کے لیے اپنا سفر جاری رکھیں گے۔
حالیہ عرصے میں بدعنوانی اور مخالفین کے خلاف آمرانہ ہتھکنڈے استعمال کرنے کے الزامات کا نشانہ بننے کے باوجود ترک وزیرِاعظم عوام میں مقبول ہیں اور برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق، قوی امکان ہے کہ وہ اگست میں ہونے والا صدارتی انتخاب جیت جائیں گے۔
ایردوان حکومت نے گزشتہ مہینوں کے دوران صدر کے عہدے کے اختیارات میں نمایاں اضافہ کیا ہے اور ملک کی تاریخ میں پہلی بار صدر کا انتخاب پارلیمان کے ارکان کے بجائے براہِ راست عوام کے ووٹوں سے عمل میں آئے گا۔
اس سے قبل ترکی میں صدر کا عہدہ نمائشی نوعیت کا ہوتا تھا۔ایردوان حکومت کی جانب سے صدارتی اختیارات میں اضافے کی کوششوں کے باعث گزشتہ کئی ماہ سے قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ وزیرِاعظم اپنے عہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد صدر کا انتخاب لڑنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
خیال رہے کہ ترک آئین کے تحت کوئی بھی شخص دو بار سے زائد وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر فائز نہیں رہ سکتا۔
'رائٹرز' نے اپنے ایک تبصرے میں لکھا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے ترکی پر حکمران ایردوان اور ان کی اسلام پسند جماعت نے ملکی سیاست کا نقشہ بدل دیا ہے۔
انہوں نے جہاں ترکی کی سیکولر عدلیہ، سول سروس اور انتہائی طاقت ور فوج کو لگام ڈال کر منتخب حکومت کے تابع کرنے کے لیے جارحانہ اقدامات کیے ہیں وہیں ترکی کو دنیا کی تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں کی صف میں لاکھڑا کیا ہے۔
منگل کو پارٹی اجلاس سے اپنے خطاب میں بھی ترک وزیرِاعظم نے اپنے سیکولر مخالفین کو آڑے ہاتھوں لیا اور ان پر کڑی تنقید کی۔
ایردوان کا کہنا تھا کہ مخالفین انہیں اس لیے پسماندہ سمجھتےہیں کیوں کہ وہ اور ان کے ساتھی اسلام سے اپنی وابستگی پر شرمندہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ مخالفین چاہتے ہیں کہ اسلام پسند ہونے کی وجہ سے ریاست ان کے ساتھ دوسرے درجے کے شہری کا سلوک کرے اور ان سے وزیرِ اعظم اور صدر تو کیا کسی گاؤں کے سربراہ کا انتخاب لڑنے کا حق بھی چھین لیا جائے۔
'رائٹرز' کے مطابق اپنے غیر معذرت خواہانہ رویے اور عوامی طرزِ حکومت کے باعث 11 سال تک اقتدار میں رہنے کے باوجود ایردوان کی مقبولیت کا گراف خاصا بلند ہے جس نے ترکی کی سیکولر حزبِ اخِتلاف کو دباؤ کا شکار کردیا ہے۔
اس دباؤ کا اظہار اس بات سے ہوتا ہے کہ ترکی کی دو بڑی سیکولر جماعتوں نے صدارتی انتخاب کے لیے مسلمان ممالک کی نمائندہ تنظیم 'او آئی سی' کے سابق سربراہ اکمل الدین احسان اوغلو کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے جن کی شہرت ایک اسلام پسند رہنما کی ہے۔
صدارتی انتخاب میں شریک تیسرے امیدوار ترکی کی سب سے بڑی نسلی اقلیت کردوں کے نمائندہ ہیں۔
'اے کے پارٹی' کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ قوی امکان ہے کہ ایردوان صدر بننے کے بعد وزارتِ عظمیٰ کے لیے اپنے قریبی معتمد اور موجودہ وزیرِخارجہ احمد اوغلو کا انتخاب کریں گے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر ترکی میں آئندہ سال ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں 'اے کے پارٹی' کو دو تہائی اکثریت حاصل ہوگئی تو عین ممکن ہے کہ حکمران جماعت آئین میں ترمیم کرکے ملک میں صدارتی نظامِ حکومت متعارف کرادے۔