واشنگٹن —
ترکی کے وزیرِاعظم رجب طیب ایردوان نے 'سوشل میڈیا' کے خلاف ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے رجوع کرلیا ہے۔
ترک ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیرِاعظم نے ترکی کی اعلیٰ آئینی عدالت میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں انہوں نے الزام لگایا ہے کہ 'سوشل میڈیا' ان کے اور ان کے اہلِ خانہ کے حقوق پامال کر رہا ہے۔
خیال رہے کہ بعض حکومتی وزرا کی مبینہ بدعنوانی سے متعلق دستاویزات اور ویڈیوز سامنے آنے کے بعد ایردوان حکومت نے گزشتہ ماہ 'ٹوئٹر' اور 'یوٹیوب' پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تھا۔
بعد ازاں ترکی کی آئینی عدالت نے 'ٹوئٹر' پر پابندی کو غیر آئینی اور اظہارِ رائے کی آزادی کے خلاف قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا تھا جس پروزیرِاعظم نے سخت تحفظات ظاہر کیے تھے۔
ترکی میں 'یوٹیوب' تاحال بند ہے۔
سینئر حکومتی عہدیداران کے مطابق ترک وزیرِاعظم کی جانب سے جمعے کو دائر کی جانے والی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ 'سوشل میڈیا' ویب سائٹس نے عدالتی حکم کے باوجود متنازع مواد نہیں ہٹایا ہے جس سے ان کےحقوق متاثر ہورہے ہیں۔
وکیل کے ذریعے دائر کی جانے والی درخواست میں ترک وزیرِاعظم نے ان ویب سائٹس پر 50 ہزار لیرا (ساڑھے 23 ہزار امریکی ڈالرز کے مساوی) ہرجانے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔
خیال رہے کہ ترک حکومت کے ساتھ جاری تنازع کے حل کے لیے رواں ہفتے 'ٹوئٹر' کمپنی کے ایک وفد نے انقرہ کا دورہ بھی کیا تھا۔
تاہم دورے اور اس کے دوران ہونے والی بات چیت میں ترک حکومت کے سرِ فہرست مطالبات – ترکی میں 'ٹوئٹر' کا دفتر کھولنے اور ترکی میں ٹیکس جمع کرانے - سے متعلق کوئی سمجھوتا طے نہیں پاسکا تھا۔
ترک ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیرِاعظم نے ترکی کی اعلیٰ آئینی عدالت میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں انہوں نے الزام لگایا ہے کہ 'سوشل میڈیا' ان کے اور ان کے اہلِ خانہ کے حقوق پامال کر رہا ہے۔
خیال رہے کہ بعض حکومتی وزرا کی مبینہ بدعنوانی سے متعلق دستاویزات اور ویڈیوز سامنے آنے کے بعد ایردوان حکومت نے گزشتہ ماہ 'ٹوئٹر' اور 'یوٹیوب' پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تھا۔
بعد ازاں ترکی کی آئینی عدالت نے 'ٹوئٹر' پر پابندی کو غیر آئینی اور اظہارِ رائے کی آزادی کے خلاف قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا تھا جس پروزیرِاعظم نے سخت تحفظات ظاہر کیے تھے۔
ترکی میں 'یوٹیوب' تاحال بند ہے۔
سینئر حکومتی عہدیداران کے مطابق ترک وزیرِاعظم کی جانب سے جمعے کو دائر کی جانے والی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ 'سوشل میڈیا' ویب سائٹس نے عدالتی حکم کے باوجود متنازع مواد نہیں ہٹایا ہے جس سے ان کےحقوق متاثر ہورہے ہیں۔
وکیل کے ذریعے دائر کی جانے والی درخواست میں ترک وزیرِاعظم نے ان ویب سائٹس پر 50 ہزار لیرا (ساڑھے 23 ہزار امریکی ڈالرز کے مساوی) ہرجانے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔
خیال رہے کہ ترک حکومت کے ساتھ جاری تنازع کے حل کے لیے رواں ہفتے 'ٹوئٹر' کمپنی کے ایک وفد نے انقرہ کا دورہ بھی کیا تھا۔
تاہم دورے اور اس کے دوران ہونے والی بات چیت میں ترک حکومت کے سرِ فہرست مطالبات – ترکی میں 'ٹوئٹر' کا دفتر کھولنے اور ترکی میں ٹیکس جمع کرانے - سے متعلق کوئی سمجھوتا طے نہیں پاسکا تھا۔