انسانی حقوق کی ایک بین الاقوامی تنیطم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں نے شمالی عراق میں غیر عرب اور غیر سنی مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے '' تاریخی نسل کشی کی ہے"۔
تنظیم کی طرف سے منگل کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ایک باضابطہ مہم کے تحت بڑے پیمانے پر لوگوں کو اغوا اور قتل کیا گیا ہے جس کی وجہ سے پورے شمالی عراق میں خوف کی فضا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس سے خطے میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل عراق میں کئی ماہ سے جاری لڑائی کی وجہ سے بے گھر ہونے والے اقلتیی برادری کے افراد کے لیے انسانی امداد اور تحفط فراہم کرنے کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔
اس رپورٹ کے جاری ہونے سے ایک روز قبل اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بھی اسلامک اسٹیٹ کی طرف سے اقلیتوں کے خلاف روا رکھے جانے والی ظلم و زیادتی کے بارے میں بھی اسی طرح کا انتباہ جاری کیا گیا تھا۔
عراقی فورسز نے پیر کو کرد دستوں اور شیعہ ملیشیا کی مدد سے جنوبی کرکوک میں سلیمان بیک کا دوبارہ قبضہ حاصل کر لیا اور دو روز میں یہ دوسرا قصبہ ہے جس کا قبضہ اسلامک اسٹیٹ سے واپس لیا گیا۔ سلیمان بیک جون سے جنگجوؤں کے کنٹرول میں تھا۔
عراقی فورسز نے اتوار کو امرلی میں داخل ہوکر اس کا قبضہ دوبارہ اپنا کنڑول حاصل کیا یہ قصبہ گزشتہ دو ماہ سے اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کے قبضے میں تھا۔
دوسری طرف برطانیہ کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے برطانوی پارلیمان میں کہا کہ برطانیہ کو اسلامک اسٹیٹ اور اس کے ساتھ لڑائی میں شامل برطانوی شہریوں سے نمٹنے کے لیے نئے قوانین کی ضرورت ہو گی۔
انہوں نے تجویز پیش کی کہ جن برطانوی شہریوں پر دہشت گرد گروہ سے مل کر لڑائی کا شبہ ہو پولیس کو ان برطانوی شہریوں کو پاسپورٹ ضبط کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ خیال کیا جارہا ہے کہ 500 افراد برطانیہ سے عراق اور شام میں لڑنے کے لیے گئے ہیں۔