یونین فار میڈیٹرینین کے تحت اسپین میں یورپی یونین اور مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقی ملکوں کے ارکان کا ایک اہم اجلاس ہوا ہے جو اسرائیل حماس جنگ روکنے کی کوششوں پر مرکوز تھا۔ اسرائیل نے اس اجلاس میں شرکت نہیں کی، اس نے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کے اپنے فیصلے کا کوئی جواز نہیں دیا ۔
یونین فار دی میڈیٹرینین ایک بین الحکومتی ادارہ ہے جسے 27 رکنی یورپی یونین اور اسرائیل ، فلسطینی اتھارٹی ، مصر ، لبنان اور حزب اللہ سمیت جنوبی اور مشرقی بحیرہ روم کے 16 ملکوں نے قائم کیا تھا ۔اس جلاس کی صدارت یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے چئیرمین جوزف بوریل اور اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفادی نے کی۔
اسپین کے شہر بارسلونا میں سفارت کاروں کے ا جتماع کے دوران ایک نیوز کانفرنس میں ریاض المالکی نے کہا ،” ہمیں ضروری دباؤ ڈالنے کے طریقے تلاش کرنا ہوں گے تاکہ اسرائیل بے گنا ہ لوگوں کو ہلاک کرنا جاری نہ رکھ سکے اور تاکہ ہم نعشوں کی گنتی جاری رکھ سکیں ۔”
SEE ALSO: جنگ بندی معاہدہ: حماس نے 17 یرغمالی رہا کر دیے، اسرائیلی جیلوں سے مزید 39 فلسطینی آزادحالیہ برسوں میں یہ اجلاس زیادہ تر یورپی یونین اور عرب دنیا کےدرمیان تعاون کا ایک فورم بن گیا ہے ۔ پیر کے اجتماع کو پروگرام کے مطابق یونین کی تشکیل کے پندرہ برس بعد اس کے کردار پر مرکوز ہونا تھا۔ لیکن سات اکتوبر کو حماس کے اس حملے کے بعد جس میں 1200 اسرائیلی ہلاک ہوئے اور 240 کو یرغمال بنا لیا گیا اور اسکے بعد اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی میں جنگ کے سبب اس اجلاس نےایک نئی اہمیت اختیار کر لی ہے۔
بوریل نے کہا کہ وہ اسرائیل کی غیر حاضری پر افسوس کرتے ہیں ۔ انہوں نے حماس کے حملے کی مذمت کا اعادہ کیا اس کے ساتھ ہی انہوں اسرائیل سے غزہ پراس کےحملے کو مستقل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا جس میں انہوں نے کہا کہ پانچ ہزار سے زیادہ بچوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
بوریل نے کہا کہ ،” ایک خوفناک واقعہ کسی دوسرے خوفناک واقعے کا جواز نہیں ہو سکتا ۔” اسرائیل اور حماس کے درمیان امن یورپی اور بحیرہ روم اور اس سے آگے تک کے ملکوں کی پوری کمیونٹی کے لیے اسٹریٹیجک طور پر اہم ہو گیا ہے۔
اسپین کے شہر بارسیلونا میں سفارت کاروں کے ا جتماع کے دوران ایک نیوز کانفرنس میں ریاض المالکی نے کہا ،” ہمیں ضروری دباؤ ڈالنے کے طریقے تلاش کرنا ہوں گے تاکہ اسرائیل بے گنا ہ لوگوں کو ہلاک کرنا جاری نہ رکھ سکے اور تاکہ ہم نعشوں کی گنتی جاری رکھ سکیں ۔”
اردن کے صفادی نے اجلاس کے موقع پر ایسو سی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ انہیں امید ہے کہ ان مذاکرات سے عرب اور یورپی ملکوں کے درمیان” ایک خلا کو پر کرنے میں مدد ملے گی ۔” انہوں نے اجلاس میں شریک عہدے دارو ں پر زور دیا کہ وہ ایک دوریاستی حل کی حمایت کریں جس کے تحت ایک فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا جائے گا۔
لیکن صفادی نے پیر کو اجلاس کے بعد یہ بھی تسلیم کیا کہ امن کے لیے ایک وسیع اتفاق رائے کے باوجود ، اس بارے میں بدستور کچھ مختلف نکتہ نظر موجود ہیں کہ اسرائیل پر جنگ روکنے کے لئے کتنا دباؤ ڈالا جائے۔
اردن کے وزیر نے کہا کہ ،” آج ہم ایک بہت کھلی ، بہت صاف اور بہت دو ٹوک گفتگو کے لیے آئے ہیں۔ ہمارے درمیان کچھ اتفاق رائے اور کچھ اختلاف رائے ہوا۔"
انہوں نے کہاہمارے کچھ رفقائے کار ابھی تک فلسطینیوں کی ہلاکت، ایک لاکھ ساٹھ ہزار مکانات کی تباہی ، ہسپتالوں کی مکمل تباہی ، اورخوراک، پانی ، ایندھن ، ادویات سے انکار کو اپنا حق دفاع کہہ رہے ہیں ، ہم اسے کھلی جارحیت کہتے ہیں ۔ “
صفادی نے یہ نہیں کہا کہ کن ملکوں نے اسرائیل کی جانب زیادہ نرم رویہ اپنایا ہے ، لیکن جمہوریہ چیک، آسٹریا ، کروایشیا اور ہنگری اسرائیل کے حق دفاع پر زور دے چکے ہیں۔
سعودی عرب کے وزیر خارجہ ، شہزادہ فیصل بن فرحان السعود کو اس اجلاس میں مدعو کیا گیا تھا ۔ اسرائیل، حماس کے حملے سے قبل سعودی عرب کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے قریب تھا۔
شہزادہ الفیصل نے کہا ، " کشیدگی میں مسلسل اضافے کا نتیجہ یقینی طور پر فلسطینیوں کی زندگیوں ، اور اسرائیل کی سلامتی سمیت علاقائی سلامتی کی قیمت پر مزید تباہی ، انتہا پسندی اور اور تنازع میں مزید شدت کی صورت میں سامنے آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ جب سے بحران شروع ہوا ہے ، ہم دونوں جانب کےعام شہریوں کو کسی بھی شکل میں ہدف بنانے کی واضح طو ر پر مذمت کر رہے ہیں ۔
" یورپی یونین کے ایک سینیئر عہدے دار نے جسے کھلے عام بات کرنے کا اختیار حاصل نہیں تھا، اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ بوریل نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اجلاس اس پر مرکوز رہے کہ عداوتوں کے حتمی طور پر رک جانے کے بعد غزہ میں انسانی ہمدردی کی امداد پہنچانے کا بندو بست کیا جائے۔
بقول ان کے،یورپی یونین چاہے گی کہ اگر اسرائیلی فورسز حماس کو شکست دیتی ہیں تو اقوام متحدہ سلامتی کسے متعلق کسی بھی خلا کو بہترین طریقے سے پر کرنے میں قائدانہ کردار ادا کرے ۔
بوریل نے اپنے افتتاحی کلمات میں کہا کہ عرب پارٹنرز غزہ پر کسی واضح اور مستند سیاسی امکان کے بغیر بات نہیں کرنا چاہتے تھے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں آج ایک ایسے سیاسی موقف کی تشکیل پر متفق ہونا چاہیے ۔
فلسطینیوں کے حامی ایک چھوٹے سے گروپ نے آرٹ art nouveau کی عمارت کے سامنے ایک ریلی کی جس میں کبھی بارسلونا کا سینٹ پاؤ ہسپتال ہوا کرتا تھا۔
SEE ALSO: جنگ بندی معاہدہ: حماس نے 17 یرغمالی رہا کر دیے، اسرائیلی جیلوں سے مزید 39 فلسطینی آزاد
اسپین جو یورپی یونین کا ایک ملک ہے اسرائیل پر اپنا حملہ روکنے پر زور دے چکا ہے جب کہ اس نے حماس کے حملے کی بھی مذمت کی ہے۔
ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سینچیز نے گزشتہ ہفتے بیلجئم کے اپنے ہم منصب کے ساتھ اسرائیل، فلسطینی علاقوں اور مصر کے ایک دورے کے دوران کہا تھا ، کہ اب وقت آگیا ہے کہ بین الاقوامی برادری اور یورپی یونین ایک فلسطینی ریاست کو تسلیم کریں ۔ ان کے اس بیان کے رد عمل میں اسرائیل نے بیلجئم اور اسپین کے سفیروں کو طلب کیا تھا۔
المالکی کے ساتھ کھڑے ہو کر گفتگو کرتے ہوئے ہسپانوی وزیر خارجہ ہوزے البنیز نے کہا کہ حماس حل کا حصہ نہیں ہو سکتا ۔ المالکی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ فلسطینی اتھارٹی کے وزیر خارجہ ہیں جن کی فورسز کو حماس نے 2007 میں غزہ پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں سے نکال دیا تھا۔
یورپی یونین فلسطینیوں کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ معاونت فراہم کرنے والا ادارہ ہے۔ 2021 اور 2024 کے درمیان وہ اس کے لیے لگ بھگ ایک اعشاریہ دو ارب یوروز مختص کر چکا ہے ۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔