جرمن چانسلر اور یورپی یونین کے دیگر اعلیٰ حکام ہفتے کے روز ترکی پہنچے۔ وہ یورپی یونین اور ترکی کے مابین گذشتہ ماہ طے ہونے والے معاہدے پر تنائو کی صورت حال حل کرنے کی کوشش کریں گے، جس معاہدے کے تحت مہاجرین کو یورپ آنے سے روکا جائے گا۔
ترکی کی شام کے ساتھ ملنے والی سرحد کے قریب واقع شہر، گزنتپ آمد کے موقعے پر آنگلہ مرخیل، یورپی کونسل کے صدر، ڈونالڈ ٹسک اور یورپی کمیشن کے اول نائب صدر، فرانس ٹِمرمن کا ترک وزیر اعظم، احمد دائود اوگلو نے خیرمقدم کیا۔
یورپی یونین کے یہ رہنما مہاجر کیمپ کا دورہ کریں گے اور بند کمرے میں ہونے والی ملاقات کے دوران مذاکرات کریں گے۔
یورپی یونین ترکی سمجھوتا
سات ارب ڈالر کے لگ بھگ مالیت کے اس سمجھوتے کے تحت، یونان کے ساحل تک پہنچے والے تارکین وطن کو ترکی واپس بھیج دیا جائے گا؛ جب کہ باقی باتوں کے علاوہ ترکوں کو ویزا کے بغیر یورپ سفر کرنے کی اجازت ہوگی۔
سمجھوتے پر تین ہفتے قبل عمل درآمد شروع ہوا، جب ابتدائی مرحلے میں غیر قانونی طور پر یونان داخل ہونے والے مہاجرین کی تعداد میں کمی لانی تھی۔ تاہم، مہاجرین کی بین الااقوامی تنظیم کے مطابق، حالیہ دِنوں، یونان میں کشتیاں روزانہ کی بنیاد پر پہنچنے لگی ہیں جن میں 150 کے قریب افراد سوار ہوتے ہیں۔
ٹسک نے جمعے کے روز ترک صدر رجب طیب اردوان کو بتایا کہ یورپی یونین سے رقوم پر بات چیت ہوسکتی ہے، جس کے بدلے ترکی کو مہاجرین کی تعداد میں کمی لانے میں مدد کرنی ہوگی۔ لیکن، یونین کے اقدار اور اظہار کی آزادی کے معاملے پر لین دین ممکن نہیں۔
یورپی پارلیمان کی سال 2015ء کی رپورٹ جو حالیہ دنوں جاری ہوئی ہے، اس میں ترکی کے انسانی حقوق اور ذرائع ابلاغ کی آزادی کے ریکارڈ پر نکتہ چینی کی گئی ہے؛ اور ترکی پر زور دیا گیا ہے کہ قانون کی حکمرانی اور بنیادی اقدار کے معاملے پر پیش رفت دکھائی جائے، جس کے بعد ہی یورپی یونین میں اُس کی شمولیت پر غور ہوگا۔
جمعے کے روز، ایمنسٹی نے یورپی یونین کے وفد پر زور دیا کہ وہ ترکی کی جانب سے مہاجرین کو درپیش انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اپنی آنکھیں بند نہ کرے۔