یورپی یونین کا فیس بک پیرنٹ کمپنی میٹا پر ایک ارب 30 کروڑ ڈالر کا ریکارڈ جرمانہ

فائل فوٹو

یورپی یونین نے پیر کو فیس بک کی مالک کمپنی میٹا پر ایک ارب 30 کروڑ ڈالر کا ریکارڈ جرمانہ عائد کرتے ہوئے اسے حکم دیا ہے کہ وہ اکتوبر تک بحر اوقیانوس کے پار صارف کے ڈیٹا کی منتقلی کا عمل روک دے۔

آئرلینڈ کے ڈیٹا پروٹیکشن کمیشن کی جانب سے ایک ارب 20 کروڑ یورو کا پرائیویسی سے متعلق جرمانہ پانچ سال قبل یورپی یونین کے ڈیٹا پرائیویسی کے سخت نظام کے نفاذ کے بعد سے سب سے بڑا جرمانہ ہے۔

اس سے قبل کے راز داری کے تحفظ کی خلاف ورزی پر سب سے بڑا جرمانہ 2021 میں ایمیزان کو کیا گیا تھا جس کی مالیت 74 کروڑ 60 لاکھ یورو تھی۔

27 ملکوں کے بلاک کا میٹا کے حوالے سے پرائیویسی کی نگرانی آئرلینڈ کرتا ہے کیونکہ امریکی کی سلیکان ویلی کی اس ٹیک کمپنی کا یورپ میں ہیڈکوارٹر ڈبلن میں واقع ہے۔

SEE ALSO: کیا آپ امریکہ میں فیس بک استعمال کرتے ہیں؟ اگر ہاں تو آپ تصفیے کی رقم حاصل کرسکتے ہیں

میٹا نے کہا ہے کہ وہ اس عدالتی فیصلے کو فوری طور پر روکنے کے لیے اپیل کرے گا۔ اس سے قبل میٹا نے خبردار کیا تھا کہ وہ اپنے یورپی صارفین کے لیے اپنی سروسز منقطع کر سکتا ہے۔

کمپنی نے کہا ہے فی الحال یورپ میں فیس بک کو بند نہیں کیا گیا ہے۔

میٹا کے عالمی امور کے صدر نک کلیگ اور چیف لیگل آفیسر جینیفر نیوز سٹیڈ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’ اس فیصلے میں نقائص ہیں۔ یہ بلا جواز ہے اور یورپی یونین اور امریکہ کے درمیان ڈیٹا کی منتقلی کرنے والی لاتعداد دیگر کمپنیوں کے لیے ایک خطرناک مثال قائم کرتا ہے‘‘۔

یہ فیصلہ 2013 میں شروع ہونے والی ایک قانونی جنگ میں ایک اور موڑ کی نشاندہی کرتا ہے جب آسڑیا کے ایک وکیل اور پرائیویسی معاملات کے سرگرم کارکن شریمز نے امریکہ کی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کے سابق کنٹریکٹر ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے لیکس کے بعد فیس بک پر موجود اپنے ڈیٹا کے تحفظ کے بارے میں شکایت درج کرائی تھی۔

SEE ALSO: امریکی سپریم کورٹ سوشل میڈیا کمپنیوں کو مواد کا ذمہ دار کیوں نہیں ٹھہراتی؟

یہ واقعہ ڈیٹا پرائیویسی پر یورپ کے سخت موقف اور امریکہ کے نسبتاً سست ردیے پر واشنگٹن اور برسلز کے درمیان تنازع کو اجاگر کرتا ہے۔

امریکہ اور یورپی یونین کے درمیان پرائیویسی شیلڈ کے نام سے موسوم ڈیٹا منتقلی کا معاہدہ یورپی یونین کی اعلیٰ عدالت نے 2020 میں منسوخ کر دیا تھا۔ عدالت نے کہا تھا کہ اس معاہدے میں یہاں کے رہائشیوں کو مناسب تحفظ فراہم نہیں کیا گیا۔

برسلز اور واشنگٹن نے گزشتہ سال پرائیویسی شیلڈ سے متعلق ایک اور معاہدے پر دستخط کیے تھے جسے میٹا اپنے تحفظ کے لیے استعمال کر سکتا ہے، لیکن یہ معاہدہ یورپی حکام کی جانب سے منظوری کا منتظر ہے۔

اگر سوشل میڈیا کمپنی میٹا کو بحر اوقیانوس کے پار صارف کے ڈیٹا کی منتقلی بند کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے تو اسے اپنے آپریشنز جاری رکھنے کے لیے بھاری رقوم اخراجات اور پیچیدہ نظام وضع کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اس کی ویب سائٹ کے مطابق، میٹا کے 21 ڈیٹا سینٹرز ہیں، لیکن ان میں سے 17 امریکہ میں ہیں جب تین یورپی ممالک ڈنمارک، آئرلینڈ اور سویڈن میں ایک سنگاپور میں ہے۔

(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئیں ہیں)