صدر جو بائیڈن کی ہدایت پر پینٹگان تقریباً 8 ہزار پانچ سو فوجیوں کو ’ ہائی الرٹ‘ پر رکھ رہا ہے جن کو ممکنہ طور پر یورپ میں تعیناتی کے لیے بھجوایا جا سکتا ہے۔ یہ اقدام اتحادیوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے ایسے وقت میں اٹھایا جا رہا ہے جب یوکرین پر روس کی طرف سے فوجی جارحیت کا خطرہ ہے اور اس ضمن میں یورپی یونین جہاں روس کو’ پہلے کبھی نظر نہ آنے والی پابندیوں‘ سے متنبہ کر رہی تھی وہیں فوجی اتحاد نیٹو نے ایسی صورتحال میں دفاعی منصوبے کو آخری شکل دے دی ہے۔
پینٹاگان کے پریس سیکیریٹری جان کربی نے پیر کے روز کہا کہ امریکی فوجیوں کی یورپ میں تعیناتی کا فیصلہ کر لیا گیا ہے؛ تاہم اس پر عمل درآمد اسی صورت میں ہو گا جب نیٹو اتحادی ’ ریپیڈ رسپانس فورس‘ یعنی فوری جواب دینے والی فوج کو متحرک کرنے کا فیصلہ کریں گے۔ یا پھر ایسی صورت میں یہ فوجی یورپ بھجوائے جائیں گے جب یوکرین کی سرحد کے نزدیک روسی فوج کے اضافے سے متعلق کوئی نئی صورتحال جنم لیتی ہے۔
جان کربی کا کہنا تھا کہ یہ اقدام نیٹو اتحادیوں کے ساتھ ہمارے عزم کا اعادہ ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ امریکی فوجیوں کو بھجوانے کا مقصد ازخود یوکرین کی سرحد پر تعیناتی نہیں ہے۔
ترجمان نے بتایا کہ وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے صدر جو بائیڈن کو مشورہ دیا تھا کہ ساڑھے آٹھ ہزار فوجیوں کو ایسی صورت میں یورپ میں ممکنہ تعیناتی کے لیے تیار رکھا جائے جب یہ اشارے مل رہے ہیں کہ روس کے صدر ولادی میر پیوٹن یوکرین پر فوجی دباؤ کم نہیں کر رہے ہیں۔ کربی نے کہا کہ وہ اس بارے میں ابھی کچھ نہیں بتا سکتے کہ امریکہ کے اندر موجود کون سے یونٹس کو ہائی الرٹ پر رکھا جا رہا ہے۔
وائٹ ہاوس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے بتایا ہے کہ صدر بائیڈن پیر کی رات دیر گئے اتحادی یورپی راہنماؤں کے ساتھ ایک وڈیو کال پر یوکرین کی سرحد پر تعنیات روسی فوج میں اضافے اور کسی ممکنہ حملے کی صورت میں ممکنہ ردعمل پر تبادلہ خیال کریں گے۔
یورپی یونین کا پہلے نظر نہ آنے والی پابندیوں کا انتباہ، نیٹو نے بھی دفاعی منصوبے کو حتمی شکل دے دی
دوسری جانب یوکرین کے خلاف روس کی فوجی جارحیت کے خدشے کے پیش نظر ماسکو اور مغرب کے درمیان تناؤ میں متواتر اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ دوسری جانب نیٹو نے فوج تعینات کرنے کی حکمت عملی کو آخری شکل دے دی ہے اورساتھ ہی اسلحے کی کھیپ سے بھرے بحری جہاز یوکرین روانہ کردیے گئے ہیں۔
ایسے میں جب کہ آئرلینڈ نے خبردار کیا ہے کہ اس کے سمندری ساحل کی حدود کے قریب ہونے والی روسی جنگی مشقوں کی اجازت نہیں دی جائے گی، برطانیہ نے انتباہ جاری کیا ہے کہ وہ یوکرین کے دارالحکومت کیف سے اپنے چند سفارت کاروں کو واپس بلا رہا ہے۔
ان بیانات میں موجود پیغام اس بات کو واضح کرتا ہے کہ انفرادی طور پر اتحادی ملکوں نے روسی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی ہے۔ لیکن نیٹو کے پرچم تلے اِسی عزم کا اعادہ اتحاد میں شریک ملکوں کے احساسات کی واضح عکاسی کرتا ہے۔
ادھر، رائٹرز کی ایک خبر کے مطابق، یورپی یونین نے پیر کے روز برسلز میں منعقد کیے گئے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں روس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یوکرین کے معاملے پر تناؤ میں اضافے میں کمی لانے کے اقدامات کرے ، اور انتباہ جاری کیا کہ اپنے ہمسائے پر حملے کی صورت میں روس کو ''شدید نتائج بھگتنا پڑیں گے''۔
SEE ALSO: بلنکن نے بالٹک ممالک کو یوکرین میں امریکی ہتھیار بھیجنے کی اجازت دے دییورپی یونین کے 27 وزرائے خارجہ نے برسلز میں اجلاس کے دوران کہا ہے کہ اتحادی ممالک ''یوکرین کے خلاف دھمکیوں اور جارحیت کے جاری اقدامات پر روس کی مذمت کرتے ہیں اور روس سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ کشیدگی میں کمی لانے کا اقدام کرے''۔
ایک مشترکہ بیان میں یورپی یونین نے کہا ہے کہ ''اکیسویں صدی میں طاقت کے کسی محور پر نازکرنا غلط فہمی ہو گی، روس کی جانب سے یوکرین کے خلاف کسی مزید جارحیت کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے اور اس کی شدید قیمت چکانا پڑے گی''۔ تاہم، ''نتائج''سے متعلق لفظ کی مزید وضاحت نہیں کی گئی۔
روس نے یوکرین کی سرحد پرایک لاکھ کے قریب تعداد میں فوج تعینات کر رکھی ہے۔ روس حملے کی منصوبہ سازی کی تردید کرتا ہے۔ روس کا کہنا ہے کہ اس طرح کے دعوے حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔
یورپی کمیشن نے، جو کہ یورپی یونین کا منتظم ادارہ ہے، یوکرین کو مالی امداد کے پیکیج کے طور پر 1.2 ارب یورو (1.36 ارب ڈالر) دینے کی تجویز منظور کر لی ہے، لیکن یورپی یونین کے رکن ملک اس بات پر متفق نہیں ہیں کہ روس کے خلاف کس حد تک سختی برتی جائے۔
SEE ALSO: یوکرین کے مسئلے پر امریکہ روس وزرائے خارجہ ملاقات میں پیش رفت نہ ہو سکیلتھوانیا کے وزیر خارجہ، گیبریل لیندزبرگس کے خیال میں روس ''مغرب کے اتحاد میں دراڑیں ڈالنے کا خواہاں ہے'' اور یہ کہ یورپی یونین کو منقسم نہیں کیا جاسکتا۔
جرمن چانسلر اولاف شلز نے یورپ اور امریکہ پر زور دیا ہے کہ چند یورپی سیاست دانوں پر تعزیرات عائد کرنے سے قبل معاملےکا بغور جائزہ لیا جائے، جب کہ آسٹریا کے وزیر خارجہ الیگزینڈر شالنس برگ نے روسی گیس پر انحصار کے معاملے کی نشاندہی کی ہے۔
یاد رہے کہ روس یوکرین کی سرحد کے ساتھ اندازاً ایک لاکھ فوجی تعینات کر چکا ہے، لیکن روس اس تاثر کو مسترد کرتا ہے کہ اس نے یوکرین پر حملے کی منصوبہ سازی کر رکھی ہے۔ روس نے یہ مطالبہ کر رکھا ہے کہ نیٹو اس بات کی ضمانت دے کہ وہ یوکرین کواتحاد کا رکن نہیں بنائے گا، جب کہ روس نے خود سابق سویت بلاک کے ملکوں میں اتحادی فوج تعینات کردی ہے، جس میں وہ کمی نہیں لانا چاہتا۔ یہ بات کہ یوکرین پر مستقل ممانعت ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کسی اتحاد کا رکن بننے کا فیصلہ کرسکے، خام خیالی کے زمرے میں آتی ہے، جس سےصورت حال میں ایک لامتناہی تعطل پیدا ہوگا جس کا اختتام لڑائی کی ہی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔
روس اس بات سے انکار کرتا ہے کہ وہ یوکرین پر حملے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں مغربی ملکوں کے الزامات کا مقصد نیٹو کی مبینہ اشتعال انگیزی پر پردہ ڈالنا ہے۔ حالیہ دنوں کے دوران اعلیٰ سطحی سفارت کاری سے کام لیا گیا ہے لیکن ان کوششوں کے نتیجے میں کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔
یوکرین کو فوجی سازو سامان کی فراہمی:
نیٹو نے پیر کے روز کہا ہے کہ وہ بحیرہ بلقان کے خطے میں اپنی دفاعی طاقت میں اضافہ کررہا ہے۔ ڈنمارک علاقے کی جانب ایک فریگیٹ روانہ کر رہا ہے جب کہ لیتھوانیا ایف 16 لڑاکا طیارے پہنچا رہا ہے؛ اسپین نے چار لڑاکا جیٹ بلغاریہ روانہ کردیے ہیں اور ساتھ ہی نیٹو کی بحری افواج کی کمک کے طور پر تین بحری بیڑے بحیرہ بلقان بھیج چکا ہے، جب کہ فرانس فوج رومانیہ بھیجنے پر تیار ہے۔ نیدرلینڈ آئندہ اپریل کے دوران اپنے دو ایف 35 لڑاکا طیارے بلغاریہ بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
SEE ALSO: روس فیصلہ کرے یوکرین پر سفارت کاری چاہتا ہے یا تصادم؟ صدر بائیڈننیٹو کے سیکرٹری جنرل ژاں اسٹولٹن برگ نے کہا ہے کہ ''نیٹو اپنے تمام اتحادیوں کے دفاع کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔ اگر ہماری سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو ہم اس کا مؤثر جواب دیں گے، جس میں ہمارے اجتماعی دفاع کو مضبوط کرنے کے اقدامات شامل ہیں''۔
واشنگٹن میں، پینٹاگان نے صدر جوبائیڈن کو مختلف تجاویز پیش کی ہیں تاکہ مشرقی یورپ اور بلقان میں امریکی فوجی موجودگی میں اضافہ لایا جائے، جس سے امریکی عزم کی خاطر خواہ عکاسی ہوتی ہو۔ یہ بات دو اہل کاروں سے پتا چلی ہے، جنھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اندرونی صورت حال سے آگاہ کیا ہے۔
ایک اہل کار نے بتایا کہ اس میں کسی نئی تعیناتی سے متعلق کوئی تجویز شامل نہیں ہے لیکن امریکی فوج کے غیر واضح دستوں کو چوکنا رہنے کے لیے کہا گیا ہے۔ دوسرے اہل کار نے اتوار کے روز بتایا کہ یہ بات عین ممکن ہے کہ امریکی فوجی اڈوں سے کمک روانہ کی جائے، ساتھ ہی یورپ کے اندر موجود فوج کی تعیناتی میں ضروری تبدیلی لائی جائے۔ لیکن، واضح کیا کہ فی الوقت وائٹ ہاؤس اور پینٹاگان محض اپنے دستیاب '' آپشنز کا جائزہ ''لے رہے ہیں۔
ماسکو میں کریملن کے ترجمان، دمتری پیسکوف نے نیٹو اور امریکہ پر الزام لگایا ہے کہ وہ یورپ میں کشیدگی میں اضافہ لانے کی کوشش کررہے ہیں، اور یہ کہ روس تناؤ میں اضافے کا ذمہ دار نہیں ہے۔
پیسکوف نے اخباری نمائندوں کوبتایا کہ ، ''یہ جو کچھ ہورہا ہے وہ روس کی وجہ سے نہیں ہورہاہے۔اس کشیدگی کا سبب نیٹو اور امریکہ ہی ہیں''۔ اس ضمن میں، انھوں نے امریکی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کا حوالہ دیا یہ کہتے ہوئے کہ روس کے لیے بتایا جا رہا ہے کہ وہ یوکرین سے اپنے سفارت کار واپس بلا رہا ہے، جب کہ روس اس بات کی تردید کر چکا ہے۔
نیٹو کے اس اعلان سے قبل یوکرین کی کشیدگی کے معاملے پر یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے اجلاس کیا جس میں متحدہ رہنے کی ضرورت کا اظہار کیا گیا، اور اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ روسی جارحیت کا مقابلہ منقسم ہو کر نہیں بلکہ متحد ہو کر کیا جاسکتا ہے۔
ایک بیان میں یورپی یونین کے ملکوں نے مجوزہ پابندیوں پر غور کیا اور خبردار کیا کہ یوکرین کے خلاف مزید کسی جارحیت کی صورت میں روس کو سنگین نوعیت کی معاشی پابندیوں کا سامنا ہوگا، اور روس کو اس کی غیرمعمولی قیمت چکانی پڑے گی۔