یورپی یونین نے اسلام پسند جنگجووں کے خلاف برسرِ پیکار عراقی کردستان کی فوج کو ہتھیار فراہم کرنے کی منظوری دیدی ہے۔
عراق کی سکیورٹی صورتِ حال پر غور کے لیے جمعے کو برسلز میں ہونے والے ہنگامی اجلاس میں یونین کے وزرائے خارجہ نے تمام یورپی ملکوں کی جانب سے کرد فوج کو ہتھیار دینے کی تجویز مسترد کردی۔
لیکن وزرائے خارجہ نے اتفاق کیا کہ اگر کوئی یورپی ملک اپنے طور پر کرد فوج کواسلحہ مہیا کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جائے گا۔
یونین کا اہم ملک فرانس پہلے ہی سے عراق کے نیم خود مختار علاقے کردستان کی فوج 'پیش مرگہ' کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے جو گزشتہ کئی ہفتوں سے عراق کے شمالی علاقوں میں 'ریاستِ اسلامیہ' (سابق 'الدولۃ الاسلامیۃ فی العراق والشام' - داعش) کے جنگجووں کی پیش قدمی روکنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
برطانیہ کے وزیرِ خارجہ فلپ ہیمنڈ بھی کردوں کو ہتھیار فراہم کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں جب کہ جرمن وزیرِخارجہ فرینک والٹر اسٹینمیر کہہ چکے ہیں کہ جرمنی اس ضمن میں ہر وہ قدم اٹھائے گا جو "قانونی اور سیاسی انداز سے ممکن ہوا"۔
جمعے کو ہونےو الے اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے برطانوی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ اجلاس کے فیصلوں سے اسلامی شدت پسندوں کی پیش قدمی سے لاحق خطرے کا مقابلہ کرنے کے یورپی عزم کا اظہار ہوتا ہے۔
اجلاس سے قبل یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کیتھرین ایشٹن نے حیدر العبادی کی بطور عراقی وزیرِاعظم کی نامزدگی پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے امید ظاہر کی تھی کہ اس تبدیلی کے نتیجے میں عراق سیاسی طور پر مستحکم ہوگا۔
برسلز میں ہونے والے یورپی وزرائے خارجہ کے اجلاس سے ایک روز قبل گزشتہ آٹھ برسوں سے عراق کی وزارتِ عظمیٰ پر فائز نوری المالکی نے اپنے عہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کرتے ہوئے نامزد وزیرِاعظم کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔
بین الاقوامی طاقتیں المالکی کی فرقہ وارانہ پالیسیوں کو عراق کے حالیہ سیاسی بحران اور تقسیم کا ذمہ دار قرار دیتی ہیں اور انہیں گزشتہ کئی ہفتوں سے مستعفی ہونے کے لیے اندرون اور بیرونِ ملک سے سخت دباؤ کا سامنا تھا۔
عراق میں سنی شدت پسند تنظیم 'داعش' کی پیش قدمی اور وسیع رقبے پر قبضے کے بعد یورپی ممالک پر بھی تنظیم کے خلاف کارروائی کے لیے عراقی اور کرد حکومت کے ساتھ تعاون کے لیے دباؤ ڈالا جارہا تھا جسے یورپی ممالک عراق میں حکومت کی تبدیلی سے مشروط کر رہے تھے۔
یورپی ملکوں کے مابین اس بارے میں واضح اختلافات موجود ہیں کہ عراق میں جاری شدت پسندی سے نبٹنے کے لیے وہاں کس حد تک مداخلت کی جائے۔
برطانیہ اور فرانس سمیت بعض ممالک امریکہ کی طرح کرد فوج کو عسکری مدد دینے کے خواہش مند ہیں۔ خیال رہے کہ امریکہ نے شمالی عراق میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں اور توپ خانے کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔
جرمنی سمیت یورپی کے بعض دیگر ملک عراقی بحران کے فریقین کو براہِ راست ہتھیار فراہم کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں اور جنگجووں کی پیش قدمی کے باعث بے گھر ہونے والے متاثرین کو امداد کی فراہمی پر ہی اکتفا کرنا چاہتے ہیں۔