پناہ گزینوں اور تارکین وطن کی یورپی ملکوں میں مساویانہ تقسیم کے معاملے پر یورپی یونین کے رکن ممالک میں اختلافات بڑھتے جا رہے ہیں۔
پراگ میں ہونے والے ایک اجلاس میں ہنگری، جمہوریہ چیک، پولینڈ اور سلواکیہ کے وزرا نے یورپی یونین کے اس مجوزہ منصوبے سے اختلاف کیا جس کے تحت ہر ملک کم ازکم ایک لاکھ 60 ہزار لوگوں کو اپنے ہاں جگہ دے گا۔
اجلاس کی میزبانی کرنے والے جمہوریہ چیک کے وزیر خارجہ لوبومر زاورالک نے کہا کہ "ہمیں اس بات پر اختیار ہونا چاہیے کہ ہم کتنے تارکین وطن کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
جرمنی کے وزیر فرینک والٹر نے یورپ کو دوسری جنگ عظیم کے بعد درپیش تارکین وطن کے سب سے بڑے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک متحدہ سوچ اپنانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ ممکنہ طور پر "یورپی یونین کی تاریخ کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔"
جرمنی کسی بھی دوسرے یورپی ملک سے زیادہ پناہ گزینوں اور تارکین وطن کو اپنے ہاں آنے کی اجازت دے رہا ہے اور توقع ہے کہ یہ تعداد رواں سال کے اواخر تک آٹھ لاکھ ہو جائے گی۔
ڈنمارک کی وزیر انجر سٹوبرگ نے کہا ہے کہ ان کا ملک بھی ایک لاکھ 60 ہزار پناہ گزینوں کو اپنے ہاں نہیں رکھے گا۔ "ہم نے اپنا حصہ لے لیا ہے۔"
ڈنمارک میں رواں ہفتے تین ہزار سے زائد تارکین وطن پہنچے تھے لیکن ان میں سے اکثریت کا کہنا تھا کہ وہ یہاں سے سویڈن جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
برطانیہ نے بھی مجوزہ تعداد کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ پانچ سالوں کے دوران بیس ہزار شامی پناہ گزینوں کو اپنے ہاں جگہ دے گا۔
اس اختلافی صورتحال کے تناظر میں یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے کہا ہے اگر وزرا پیر تک کسی چیز پر اتفاق نہیں کرتے تو وہ رواں ماہ یورپی یونین کے رہنماؤں کا ایک اجلاس بلائیں گے۔
دریں اثناء اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین "یو این ایچ سی آر" کے سربراہ نے یورپی یونین کے مساویانہ تقسیم کے مجوزہ منصوبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے سال کے آخر میں یونین کو دو لاکھ پناہ گزینوں کو یونان، اٹلی اور ہنگری سے کہیں اور منتقل کرنا پڑے گا۔
مشرق وسطیٰ اور افریقہ سے یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن پہلے ان تین ممالک میں ہی پہنچتے ہیں۔