افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کہا ہے کہ مغربی سفارتکاروں کے ساتھ افغان وفد کےاوسلو، ناروے میں ہونے والے تین روزہ مذاکرات ان کے الفاظ میں ’ بہت اچھے رہے۔ انہوں نے یہ بیان منگل کو مذاکرات کے آخری روز دیا اور کہا کہ ان کا یہ دورہ بہت شاندار تھا اور اس طرح کے دورے انہیں دنیا کے قریب لے آئیں گے
مغربی حکام اور امدادی گروپ کے نمائندوں کے ساتھ طالبان کے مذاکرات کے تیسرے روز زیادہ تربات چیت اس مسئلے پرمرکوز رہی کہ افغانستان کوانسانی ہمدردی کی بنیاد پرامداد کی فراہمی کو کس طرح ممکن بنایا جائے۔
ناروے کے دارالحکومت اوسلو کے ایک ہوٹل کے بند کمرے میں یہ مذاکرات ہوئے۔ امدادی گروپوں اوربین الاقوامی ایجنسیوں کا اندازہ ہے کہ افغانستان کی نصف آبادی یعنی دو کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ افراد شدید بھوک کا شکار ہیں ، جب کہ 90 لاکھ فاقہ زدگی کی دہلیز پر پہنچ چکے ہیں۔
اس بات چیت میں طالبان کا مطالبہ تھا کہ امریکہ اور مغربی ممالک افغانستان کے دس بلین ڈالرز سے زیادہ کے منجمد اثاثےانہیں منتقل کریں، مگر فی الحال اس معاملے پر کوئی اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ حال ہی میں اقوام متحدہ نے طالبان انتظامیہ کو کچھ لیکوڈیٹی کی سہولت فراہم کی ہے تاکہ طالبان ضروری درآمدات کی نقد ادائیگی کر سکیں۔
ناروے کی ریفیوجی کونسل کے سیکریٹری جنرل یان ایگلن ان مذاکرات میں شامل تھے ۔ وہ کہتے ہیں کہ مغرب کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں سے نقد ادائیگی یا لیکوڈیٹی کا بحران پیدا ہوا ہے، جس کا مطلب یہ ہے ہم اس ملک کے لیے امدادی فنڈنگ حاصل نہیں کر پا رہے ہیں۔ اس لیے مغرب اور طالبان کو بات چیت کے ذریعے اس کا حل نکالنا ہوگا، جن کی وجہ سے شہریوں کو مصائب جھیلنا پڑ رہے ہیں، ان پابندیوں کو ختم کرنے کی فوری ضرورت ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری طرف مغربی طاقتیں ان پابندیوں کو نرم کرنے سے پہلے طالبان سے یہ مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ خواتین کے حقوق میں اضافہ کریں، صنفی مساوات پیدا کریں اور اپنی انتظامیہ میں اقلیتی نسلی اور مذہبی گروپوں کو بھی شامل کریں۔
پچھلے ہفتے طالبان حکمرانوں نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا تھا کہ وہ مارچ کے آخر تک لڑکیوں اور عورتوں کے سکول کھول دیں گے۔ ایگلن نے اوسلو میں افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیرخان متقی سے ملاقات کی ہے اور انہوں نے بتایا کہ طالبان نے اپنے اس وعدے کو اوسلو کانفرنس میں بھی دوہرایاہے۔
اگست میں افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد طالبان کا یورپ کا یہ پہلا دورہ تھا۔ اتوار کو شروع ہونے والے ان مذاکرات کے پہلے روز طالبان اور افغان سول سوسائٹی کے نمائندوں کے درمیان بات چیت ہوئی، جب کہ دوسرے روز یورپی یونین، امریکہ، برطانیہ، فرانس اٹلی اور میزبان ناروے کے سفارت کار شریک ہوئے۔ منگل کو ہونے والی بات چیت دو طرفہ تھی، جس میں انسانی ہمدردی کی امداد دینے والی آزاد تنظیموں سمیت تمام فریق شریک ہوئے۔
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا)