افغانستان میں طالبان حکومت، مغربی ممالک اور افغانستان میں سول سوسائٹی کے نمائندوں کے مابین تین روزہ مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے۔
اتوار کو ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں شروع ہونے والے مذاکرات میں طالبان وفد کی قیادت افغانستان میں طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کر رہے ہیں۔
مذاکرات میں شرکت کے لیے افغان طالبان رہنماؤں کا 15 رُکنی وفد ہفتے کو ناروے کے خصوصی طیارے میں کابل سے اوسلو پہنچا تھا۔
یہ مذاکرات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب اقتصادی بحران سے دوچار افغانسستان میں انسانی المیے کے خدشات جنم لے رہے ہیں اور طالبان حکومت دنیا کے دیگر ممالک سے مطالبہ کر رہی ہے کہ اُن کی حکومت کو تسلیم کیا جائے۔
اوسلو کے ایک ہوٹل میں ہونے والے بند کمرہ مذاکرات کے پہلے مرحلے میں طالبان حکومت کے نمائندے افغانستان میں خواتین اور انسانی حقوق کے کارکنوں اور ناروے میں مقیم افغان کمیونٹی کے نمائندوں سے بات چیت کریں گے۔
مذاکرات سے قبل طالبان حکومت کے نائب وزیرِ ثقافت و اطلاعات نے ایک وائس نوٹ ٹوئٹ کیا تھا جس میں طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ کی جانب سے بات چیت کے اس عمل کو خوش آئند اور مثبت قرار دیتے ہوئے نارروے کی حکومت کا شکریہ ادا کیا گیاتھا۔
بیان میں کہا گیا تھا کہ افغان طالبان توقع کرتے ہیں کہ ان مذاکرات میں سہولت کاری کے ذریعے نارروے, طالبان حکومت اور یورپی ممالک کے مابین اچھے تعلقات کے لیے ایک گیٹ وے کا کام کرے گا۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس اگست میں افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد طالبان حکومت کے کسی بھی نمائندہ وفد کا یہ کسی بھی یورپی ملک کا پہلا دورہ ہے۔
البتہ طالبان حکومت کے وفود اس سے قبل ایران، روس، پاکستان، قطر، ترکمانستان اور چین کے دورے کر چکے ہیں۔
غالب امکان ہے کہ تین روزہ مذاکرات کے دوران طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ امریکہ سمیت مغربی ممالک پر ایک مرتبہ پھر زور دیں گے کہ وہ افغانستان کے 10 ارب ڈالر کے منجمد فنڈز بحال کر دیں تاکہ مشکلات سے دوچار افغان معیشت کو دوبارہ بہتر کیا جا سکے۔
اقوامِ متحدہ نے حال ہی میں توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے برآمدات کی مد میں افغانستان کے لیے فنڈز جاری کیے تھے۔ البتہ عالمی ادارے نے خبر دار کیا تھا کہ لگ بھگ 10 لاکھ افغان بچے غذائی قلت کے خطرے سے دوچار ہیں جب کہ ملک کی زیادہ تر آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
ناروے کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ طالبان وفد تین روزہ مذاکرات کے دوران ناروے میں مقیم افغان کمیونٹی سے بھی مذاکرات کرے گا جن میں خواتین رہنماؤں اورصحافیوں کے علاوہ انسانی امداد، سماجی، معاشی اور سیاسی شعبوں میں کام کرنے والے افراد بھی شامل ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ناروے انسانی حقوق کے تحفظ اور خواتین کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے علاوہ انسانی امداد اور معیشت کی بہتری کے لیے طالبان کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔
اتین روزہ مذاکرات کے دوران افغانستان کے لیے امریکی نمائندۂ خصوصی تھامس ویسٹ کی قیادت میں امریکی وفد بھی طالبان وفد سے ملاقات کرے گا۔
امریکی محکمۂ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی وفد افغانستان میں جامع حکومت کے قیام، انسانی امداد اور معیشت کی بحالی کے لیے فوری ردِعمل، انسدادِ دہشت گردی اور بالخصوص بچیوں کی تعلیم کی ضرورت پر زور دے گا۔
جمعے کو ایک بیان میں نارویجن وزیرِ خارجہ نے واضح کیا تھا کہ طالبان وفد کے اس دورے کا تعلق اُن کی حکومت کو تسلیم کرنے سے نہیں ہے بلکہ ہمیں اُن سے بات چیت کرنی چاہیے جو عملی طور پر اس وقت افغانستان میں نظامِ حکومت چلا رہے ہیں۔
خیال رہے کہ ناروے اس سے قبل مختلف ممالک کے تنازعات میں سفارت کاری کر چکا ہے۔ افغانستان سے قبل ناروے اسرائیل، فلسطین تنازع، کولمبیا، وینزویلا، شام، میانمار، جنوبی سوڈان، موزمبیق اور فلپائن سمیت کئی ممالک میں قیامِ امن کے لیے سہولت کاری کرتا رہا ہے۔
اس خبر کے لیے مواد خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لیا گیا ہے۔