یورپی یونین کے اراکین پارلیمنٹ نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کا دو روزہ دورہ مکمل کر لیا ہے۔ وفد میں شامل 23 اراکین نے جموں و کشمیر کی صورتِ حال کا جائزہ لیا۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق وفد نے منگل اور بدھ کو سرینگر میں سرکاری اہل کاروں، سیاسی جماعتوں کے نمائندوں اور سیاحت کی صنعت سے وابستہ افراد سے ملاقاتیں کیں۔ وفد سے ملاقاتیں کرنے والوں کا انتخاب سرکاری اداروں نے کیا تھا-
سرینگر سے واپسی سے قبل وفد کے ارکان نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ وہ مقامی سیاست میں دخل اندازی نہیں کرنا چاہتے تاہم وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بھارت کی کوششوں کو سراہتے ہیں۔ وفد کے اراکین نے بھارت اور پاکستان پر زور دیا کہ وہ باہمی مسائل کو حل کرنے کے لیے بات چیت اور افہام و تفہیم کا راستہ اپنائیں۔
بھارت کے ذرائع ابلاغ کے ایک حصے میں اس دورے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتیں بھی اسے مکمل طور پر طے شدہ قرار دے رہی ہیں۔ ناقدین کا یہ اعتراض ہے کہ حکومت نے غیر جانبدرانہ جائزے کی بجائے وفد کو صرف اپنی مرضی کے افراد سے ملوایا ہے۔
بھارتی حکومت پر یہ بھی تنقید کی جا رہی ہے بھارتی پارلیمان کے اراکین کو جموں و کشمیر جانے کی اجازت نہیں لیکن یورپی ممالک کے اراکین کو یہاں کا دورہ کرایا جا رہا ہے۔
بھارتی نجی ٹیلی ویژن چینل این ڈی ٹی وی نے انکشاف کیا ہے کہ وفد کی میزبان غیر سرکاری تنظیم 'ویسٹ' ایسی بھارتی نژاد خاتون تاجر مادی شرما چلارہی ہیں جو خود متعدد تنازعات میں گھری ہوئی ہیں۔
چینل نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ وفد کے سفر اور قیام و طعام پر آنے والا بھاری خرچ کون اٹھا رہا ہے۔
بعض بھارتی تجزیہ نگاروں نے کہا ہے کہ وفد میں شامل اراکین کا تعلق اٹلی، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور پولینڈ کی انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں سے ہے۔ جو تارکینِ وطن سمیت متعدد امور پر انتہا پسندانہ خیالات رکھتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی کئی لوگوں نے وفد کے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے دورے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
بھارت پہنچنے والے وفد میں 27 اراکین شامل تھے۔ تاہم بھارتی میڈیا کے مطابق چار اراکین نے اپنی مرضی کے مقامات پر لوگوں سے ملنے کی اجازت نہ ملنے پر دورے سے دستبرداری اختیار کر لی تھی۔
وفد کی بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات
سرینگر روانگی سے قبل وفد کےاراکین نے نئی دہلی میں وزیرِ اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی تھی۔ جس کے بعد بھارتی حکومت کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ کشمیر میں حالات آہستہ آہستہ معمول پر آرہے ہیں اور زندگی کی سرگرمیاں بحال ہو رہی ہیں۔
وفد کے ارکان نے بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول سے بھی ملاقات کی تھی۔
پانچ اگست کو نئی دہلی کی طرف سے جموں و کشمیر کی آئینی خود مختاری کو ختم کرنے اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے براہِ راست وفاق کے زیرِ کنٹرول علاقے بنانے کے اقدام کے بعد یہ کسی بھی غیر ملکی وفد کا سرینگر کا پہلا دورہ تھا۔ لیکن نئی دہلی میں یورپین یونین کے سفارت خانے نے پیر کو ایک بیان جاری کرکے یہ وضاحت کی تھی کہ وفد کے ارکان ذاتی حیثیت میں یہ دورہ کر رہے ہیں۔
وفد کی آمد پر مظاہرے
وائس آف امریکہ کے نمائندے یوسف جمیل اور زبیر ڈار کے مطابق یورپی وفد کے دورے کے دوران وادی کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کی جانب سے آنسو گیس کا استعمال اور پیلٹ گنز کا بھی استعمال کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں متعدد افراد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
کلگام میں پانچ مزدور ہلاک
یورپی وفد کے دورے کے دوران وادئ کشمیر کے جنوبی ضلع کلگام میں منگل کی شب نامعلوم مسلح افراد نے پانچ غیر مقامی مزدوروں کو گولیاں مارکر ہلاک جب کہ ایک کو شدید زخمی کردیا۔ حکام کے مطابق ہلاک اور زخمی ہونے والوں کا تعلق بھارتی ریاست مغربی بنگال سے ہے اور یہ سب مسلمان ہیں۔
یہ جنوبی کشمیر میں گزشتہ سترہ دن میں پیش آنے والا اپنی نوعیت کا چھٹا واقعہ ہے۔ اس سے پہلے مسلح افراد نے شوپیان، پُلوامہ اور اننت ناگ اضلاع کے مختلف مقامات پر چار غیر کشمیری ٹرک ڈرائیوروں، سیبوں کا کاروبار کرنے والے ایک تاجر اور ایک مزدور کو ہلاک کیا تھا۔ بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے ان واقعات کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا ہے۔