راولپنڈی سے لاپتا پاکستانی نژاد امریکی خاتون کے سابق شوہر نے ان کے قتل کا اعتراف کر لیا ہے: پولیس

راولپنڈی کے ریجنل پولیس افسر (آر پی او) اشفاق احمد نے بتایا کہ وجیہہ فاروق سواتی کے سابق شوہر رضوان حبیب نے انہیں ہنگو میں قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔  (فائل فوٹو)

راولپنڈی کی پولیس کے حکام کا کہنا ہے کہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کے علاقے سے لاپتا ہونے والی پاکستانی نژاد امریکی خاتون وجیہہ فاروق سواتی کو ان کے سابق شوہر نے قتل کرنے کا اعتراف کر لیا ہے۔

راولپنڈی کے ریجنل پولیس افسر (آر پی او) اشفاق احمد نے بتایا کہ وجیہہ فاروق سواتی کے سابق شوہر رضوان حبیب نے انہیں ہنگو میں قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔

حکام کے مطابق اس قتل میں ملزم کے ساتھ اس کا والد اور ملازمین بھی شامل ہیں۔

امریکی نژاد خاتون کون تھیں؟

امریکی نژاد پاکستانی خاتون وجیہہ فاروق سواتی کا تعلق ایبٹ آباد سے تھا البتہ کئی برس قبل ان کی امریکہ میں مقیم ڈاکٹر کے ساتھ شادی ہوئی تھی۔

اطلاعات کے مطابق 2014 میں ان کے پہلے شوہر ڈاکٹر مہدی علی بشیر الدین قمر کو پنجاب کے علاقہ ربوہ کے قریب قتل کیا گیا تھا۔ وجیہہ فاروق نے دوسری شادی رضوان حبیب نامی شخص سے کی تھی اور دونوں کے درمیان دو سال قبل طلاق ہوگئی تھی۔

راولپنڈی کے تھانہ مورگاہ میں درج ہونے والی ایف آئی آر کے مطابق امریکی نژاد پاکستانی خاتون وجیہہ فاروق سواتی رواں سال 16 اکتوبر کو اپنے سابق شوہر سے جائیداد کے معاملات طے کرنے کے لیے پاکستان آئی تھیں۔ ان کے ساتھ ان کا 15 سالہ بھانجا بھی برطانیہ سے آیا تھا۔

واضح رہے کہ وجیہہ فاروق کی ایک بہن برطانیہ میں مقیم ہیں جہاں وہ اپنے بچوں کو چھوڑ کر آئی تھیں۔

ایف آئی آر کے مطابق پاکستان پہنچنے کے بعد ان کے سابق شوہر رضوان حبیب انہیں ڈی ایچ اے میں واقع اس گھر میں لے گئے جس کی ملکیت کا تنازع دونوں کے درمیان چل رہا تھا۔

اس گھر میں ملازمین کی طرف سے دیے جانے والے مشروبات پینے کے بعد وجیہہ فاروق اور ان کا بھانجا آیان سو گئے۔ آیان کے مطابق جب وہ اٹھا تو اس کی خالہ اور ان کا سامان غائب تھا جب کہ گھر میں رضوان حبیب بھی موجود نہیں تھے۔

ایف آئی آر کے متن کے مطابق وہاں موجود ملازمین نے آیان کو کمرے میں بند کرنے کی کوشش کی البتہ اس دوران اس نے اپنی ایک اور عزیزہ کو بلایا اور ان کے ساتھ چلا گیا۔ اس کے بعد برطانوی سفارت خانے سے ہنگامی دستاویزات لینے کے بعد آیان واپس برطانیہ چلا گیا اور اس کے بعد سے اب تک وجیہہ فاروق کے بارے میں کسی کو علم نہیں تھا۔

اس بارے میں وجیہہ فاروق سواتی کے بیٹے عبداللہ مہدی کی وکیل شبنم نواز ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں حبس بے جا کی درخواست دائر کی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ پولیس کی طرف سے اس کیس میں تاخیر کی جا رہی ہے اور ایف آئی آر کا اندراج تک نہیں کیا جا رہا تھا۔ اس پر اغوا کے 15 دن بعد دو نومبر کو تھانہ مورگاہ میں ایف آئی آر درج کی گئی۔

اس کیس میں لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس راجا شاہد محمود عباسی کی عدالت نے راولپنڈی کو آئندہ سماعت تک مغویہ کو بازیاب کرانے کا حکم دیا تھا۔

اس کیس میں نامزد ملزم رضوان حبیب بنگش کو فوری طور پر گرفتار نہیں کیا گیا تھا۔ پولیس کے مطابق ملزم تفتیش میں تعاون کر رہا تھا اور پولیس کی طرف سے بلائے جانے پر تھانے آ رہا تھا۔ تاہم پولیس نے گزشتہ ہفتے اس بارے میں شواہد جمع ہونے پر اسے گرفتار کر لیا تھا۔

رضوان حبیب بنگش نے وجیہہ فاروق کے غائب ہونے کے حوالے سے 22 اکتوبر کو تھانہ مورگاہ میں ایک درخواست بھی دائر کی تھی۔ البتہ دو نومبر کو ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی جس میں ان کو وجیہہ فاروق سواتی کے اغوا کا ملزم قرار دیا گیا تھا۔

رضوان حبیب نے اس ایف آئی آر کی منسوخی کے لیے لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں ایک درخواست بھی دائر کی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے پولیس حکام کو کہا کہ پولیس کو شاید اس کیس کی سنگینی کا اندازہ نہیں ہو رہا کہ تین بچوں کی ماں اور امریکی شہری اغوا ہو چکی ہے اور اس کے بارے میں اب تک کوئی اطلاع نہیں ہے۔ عدالت نے رضوان حبیب کی درخواست مسترد کر دی تھی۔

'رضوان حبیب ہی وجیہہ کو اغوا اور قتل کرنے میں ملوث ہے'

وجیہہ فاروق کے بیٹے عبداللہ مہدی کی وکیل شبنم نواز ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں تمام تر شواہد ملزم کے خلاف تھے البتہ پولیس نے انتہائی تاخیر سے دو ماہ بعد ملزم کو گرفتار کیا۔

انہوں نے کہا کہ اس کیس میں ملزم نے پیسے کی لالچ میں وجیہہ فاروق سواتی کو قتل کیا ہے۔ وہ امریکہ سے کروڑوں روپے گھر کے لیے بھیجتی رہی تھیں اور رضوان حبیب نے گھر بنوانے کے بعد اپنے نام کیا اور بعد میں اپنی ماں کے نام کرا دیا جس پر وجیہہ نے اعتراض کیا تھا اور یہی طلاق اور اب اس کے قتل کی وجہ بھی بنی ہے۔

ان کے بقول مقتولہ کے چھوٹے بچے اس وقت گہرے صدمے سے گزررہے ہیں۔

شبنم نواز نے کہا کہ اس اغوا اور قتل میں رضوان حبیب کے ساتھ ان کے ملازمین بھی شریک جرم ہیں۔

'وجیہہ فاروق کے غائب ہونے میں میرا کوئی ہاتھ نہیں'

اس مقدمہ میں گرفتاری سے قبل وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ایف آئی آر میں نامزد رضوان حبیب نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں علم نہیں کہ ان کا سوتیلا بیٹا عبداللہ مہدی ان کو اس کیس میں کیوں شامل کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ وجیہہ فاروق سواتی ان کی اہلیہ ہیں اور برطانیہ سے آنے کے بعد وہ انہیں گھر لے کر آئے تھے اور اس کے بعد اپنے بھائی کے ولیمے میں شرکت کے لیے ہنگو چلے گئے تھے۔ اسی شام واپسی پر معلوم ہوا کہ وجیہہ باہر گئی ہوئی ہیں اور ان کی عدم موجودگی میں ان کا بھانجا آیان اپنی ایک خالہ کے ساتھ کہیں چلا گیا۔ اس پر وجیہہ ملازمین پر ناراض ہوئی اور گھر سے باہر چلی گئی تھیں جس کے بعد سے اب تک اس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔

رضوان حبیب کا کہنا تھا کہ انہوں نے تھانہ مورگاہ میں اپنی اہلیہ کے غائب ہونے سے متعلق درخواست دی تھی البتہ اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور ان کے سوتیلے بیٹے کی درخواست پر ان کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا۔

ان کے بقول اس ایف آئی آر میں ان پر جھوٹے الزامات عائد کیے گئے ہیں اور اس تمام معاملے میں ان کے سوتیلے بیٹے عبداللہ مہدی کی وکیل شبنم نواز بھی شریک ہیں۔

پولیس کا مؤقف

راولپنڈی پولیس کے آر پی او اشفاق احمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک مشکل کیس تھا جس میں پولیس نے جدید تکنیک اور طریقوں سے جرم کے حوالے سے تحقیقات کیں اور اب ملزم نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے وجیہہ فاروق سواتی کو اکتوبر میں ہی قتل کر دیا تھا۔

پولیس کے مطابق ملزم نے چھری کے وار کرکے خاتون کو قتل کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ملزم کی طرف سے جس جگہ کی نشاندہی کی گئی ہے وہاں سے لاش برآمد کرنے کے لیے راولپنڈی پولیس کی ٹیمیں ہنگو روانہ ہو چکی ہیں اور ملزم کے ساتھ ساتھ ان کے والد اور ملازمین کے حوالے سے انکشاف ہوا ہے کہ وہ بھی جرم میں شریک تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان تمام افراد کو بھی جلد گرفتار کرکے تفتیش کی جائے گی۔

اس کیس کے حوالے سے کیس کے مدعی عبداللہ مہدی نے پاکستان میں امریکی سفارت خانے کو بھی مدد کے لیے درخواست دی تھی۔