آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ (او سی سی آر پی) نے سوئس بینک کےاکاؤنٹ ہولڈرز کی 100 ارب ڈالرز سے زائد کے کھاتوں کی تفصیلات جاری کی ہیں جن میں پاکستان کے خفیہ ادارے کےسابق سربراہ اوران کے رشتہ داروں کے نام بھی شامل ہیں۔
وفاقی وزیر فواد چوہدری کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ پانامہ پیپرز، پنڈورا پیپرز اور اب سوئس اکاؤنٹس کی کہانی کرپشن اور منی لانڈرنگ پاکستان جیسےممالک کااہم ترین مسئلہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے پیسے چوری کیے جاتے ہیں پھر ان کو ملک سے باہر بھیج دیا جاتا ہے۔ عمران خان اس مسئلے پر مسلسل آواز اٹھا رہے ہیں کہ امیر ملک غریب ممالک کے اس استحصال کو روکیں۔ اب وہ تمام اتحاد کر رہے ہیں جنہوں نے منی لانڈرنگ کی ہے۔
آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ کی جاری کردہ تفصیلات کے مطابق سوئس بینکنگ سیکریٹ ایک بڑا مالیاتی اسکینڈل ہے۔ اب تک مجموعی طور پر 18 ہزار بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات سامنے آئی ہیں جن کے مطابق دنیا بھر سے خفیہ اداروں کی 15 اہم شخصیات یا ان کے خاندان کے افراد کے سوئس بینک میں اکاؤنٹس ہیں جن میں رقوم جمع کرائی گئیں۔
او سی سی آر پی کے مطابق 47 میڈیا اداروں کے ساتھ مل کر دنیا کی سب سے بڑی تحقیقات کی گئی ہیں۔ یہ رپورٹ 1947 سے 2010 تک کی ہے اور اس میں دنیا کی نامور سیاسی، فوجی ،انٹیلی جنس شخصیات کے نام بھی شامل ہیں۔
تحقیقاتی رپورٹ میں دنیا بھر کے بدعنوان سیاسی رہنماؤں اور آمروں کے سوئس بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات شامل ہیں۔ اکاؤنٹس رکھنے والوں میں اردن، یمن، عراق، مصر اور پاکستان کے خفیہ اداروں کے سربراہان یا ان کے رشتہ داروں کے نام شامل ہیں۔
او سی سی آر پی نے بتایا کہ بعض افراد پر بد عنوانی، تشدد یا دونوں کا الزام ہے جب کہ کریڈٹ سوئس سیکریٹس میں مجرموں اور بدعنوان سیاسی راہنماؤں کو بے نقاب کیا گیا ہے۔
سوئس سیکریٹس کے مطابق زمبابوے کے سابق صدر رابرٹ موگابے کے مخالفین کو کچلنے کے لیے ایک بینک نے 10 کروڑ ڈالرز کی رقم دی۔سابق مصری آمر حسنی مبارک اور سابق مصری انٹیلی جنس چیف عمر سلیمان بھی سوئس سیکریٹ اکاؤنٹس کے مالک نکلے۔
قازقستان کے صدر قاسم جومارت توقائف کے سوئس اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی سامنے آئیں جن کے مطابق انہوں نے 1998 میں بطور وزیرِ خارجہ 10 لاکھ ڈالر سوئس بینک اکاؤنٹ میں جمع کرائے جب کہ قازقستان کے صدر نے برٹش ورجن آئی لینڈز میں آف شور کمپنیاں بنائیں۔ ان اثاثوں کی مالیت 50 لاکھ ڈالرز کے قریب ہے۔قازقستان کے صدر نے امریکہ اور روس میں 77 لاکھ ڈالرز کے اپارٹمنٹس بھی خریدے تھے۔
خفیہ اداروں کے افسران کے بینک اکاؤنٹس
سوئس سیکریٹس کے تحت جاری کردہ معلومات کے مطابق دنیا بھر کے 15 خفیہ اداروں کی اہم شخصیات یا ان کے قریبی عزیزوں کے سوئٹزر لینڈ کے کریڈٹ سوئس بینک میں اکاؤنٹس میں کروڑوں ڈالرز موجود ہیں۔
ان اکاؤنٹس میں بھاری رقوم موجود ہونے سے بینک پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
جن ممالک کے انٹیلی جنس چیفس کے اکاؤنٹس اس بینک میں موجود ہیں ان میں عراق، اردن، یمن،مصر اور پاکستان شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ پر مالیاتی جرائم اور تشدد کے الزامات بھی عائد کیے جاتے رہے ہیں۔
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اختر عبدالرحمٰن کا اکاؤنٹ
او سی سی آر پی کی رپورٹ کے مطابق 1970 کی دہائی کے آخر میں امریکہ نے روس کے خلاف افغانستان میں مختلف جہادی تنظیموں کی معاونت کی۔ اس دوران سعودی عرب نے مبینہ طور پر امریکہ کے خفیہ ادارے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے سوئس بینک کے اکاؤنٹس میں بھاری رقوم منتقل کیں اور ان میں سے رقم مبینہ طور پر پاکستان کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کو دی گئی جس کے اس وقت کے سربراہ جنرل اخترعبدالرحمٰن تھے۔
رپورٹ کے مطابق 1980کی دہائی کے وسط میں جنرل اختر عبد الرحمٰن کو امریکہ کی سی آئی اے کی طرف سے رقوم دی گئی تھیں اور اسی دور میں ان کے تین بیٹوں کے نام پر سوئزر لینڈ کے بینک میں اکاؤنٹس کھولے گئے۔
رپورٹ میں جنرل اختر عبدالرحمٰن کے ایک قریبی ساتھی محمد یوسف کا حوالہ دیا گیا ہے جن کا کہنا تھا کہ امریکہ اور سعودی عرب کی طرف سے کئی لاکھ ڈالر کے فنڈز جاری کیے گئے تھے جو سی آئی اےنے آئی ایس آئی کے زیرِ کنٹرول اکاؤنٹس میں جمع کرائے تھے۔
محمد یوسف کے مطابق 1984 میں سی آئی اے کا افغانستان کے لیے بجٹ 20 کروڑ ڈالرز تھا۔ جنرل اختر عبدالرحمٰن اس وقت اس بات کے ذمہ دار تھے کہ ان رقوم کو کیسے خرچ کیا جائے۔
رپورٹ میں نامعلوم ذریعے کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہےکہ جنرل اختر عبدالرحمن نے ڈالرز اپنی جیب میں منتقل کیے۔
جنرل اختر عبدالرحمٰن کے بیٹوں اکبر، غازی اور ہارون کے نام سے یکم جولائی 1985 کو ایک اکاؤنٹ کھولا گیا جس میں 37 لاکھ ڈالرز جمع کرائے گئے۔
دوسرا اکاؤنٹ جنوری 1986 میں ان کے بیٹے اکبر کے نام سے کھولا گیا جس میں 92 لاکھ ڈالر جمع کرائے گئے۔ 1985 میں امریکہ کے صدر رونلڈ ریگن نے ایک بیان میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا تھا کہ یہ پیسہ کہاں جا رہا ہے۔
جنرل اختر عبدالرحمٰن 1988 میں جنرل ضیا الحق کے ساتھ طیارہ حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
او سی سی آر پی کے مطابق اس بارے میں جنرل اختر عبدالرحمٰن کے بیٹے اکبر اور ہارون نے کوئی جواب نہ دیا البتہ ان کے بیٹے غازی خان نے ان معلومات کو غلط قرار دیا اور البتہ اس تردید کے بارے میں مزید تفصیل فراہم نہیں کی گئی۔
اس رپورٹ کی مزید تفصیلات جاری کی جا رہی ہیں جن میں پاکستان کی دیگر شخصیات کے نام بھی شامل ہیں۔
جنرل اختر عبدالرحمنٰ کے صاحبزادے ہارون اختر کی تردید
جنرل اختر عبدالرحمٰن کے صاحب زادے ہارون اختر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں نے میرے والد پر الزام عائد کرنے کے لیے 1985 کے سال کا ذکر کیا ہے البتہ اس برس اس اکاؤنٹ میں کتنے پیسے جمع کرائے گئے یہ نہیں بتایا۔ یہ صحافتی اصولوں کے خلاف ہے کہ ادھر ادھر سے جمع کی گئی معلومات کو ایک کہانی کی شکل دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ افسوس ناک امر ہے کہ اس شخص پر الزام عائد کیا گیا جو اس دنیا میں نہیں ہے اور اپنا دفاع نہیں کر سکتا۔
ہارون اختر کا کہنا تھا کہ میرے ایک بھائی کو اس حوالے سے پیغام آیا تھا جس پر انہوں نے تردید کر دی تھی کہ یہ معلومات درست نہیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ 1985 میں ہم اسکول میں نہیں پڑھتے تھے بلکہ اس وقت پروفیشنل چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تھےاور اپنا کاروبار کرتے ہوئے محنت کے بعد اس مقام پر پہنچےہیں۔ جنرل کے بیٹے کیا کاروباری نہیں ہوسکتے؟ اور اگر کامیاب کاروبار کرنے والے ہوں تو الزامات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے دنیا بھر میں کاروباری روابط ہیں۔ پاکستان سے بیرونِ ملک برآمدات کرتے ہیں۔ سامنے آنے والی معلومات بینک کی طرف سے نہیں دی گئیں۔ بینک قانون کے مطابق معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں البتہ یہ لیکس ہیں۔مختلف ٹکڑوں میں بٹی ہوئی معلومات کو اپنی مرضی کے معنی دے کر چھاپ دیا گیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ہارون اختر نے کہا کہ ہم اکاؤنٹس کے بارے میں دی گئی معلومات کی تردید کرتے ہیں۔اگر اکاؤنٹس کھلے تھے تو میرے والد کا ان سے کیا تعلق ہے۔ ہم اس وقت بھی آزادانہ کام کررہے تھے کوئی بچے نہیں تھے۔ فوکس اس معاملے میں صرف یہ ہے کہ انٹیلی جنس سربراہان کے نام لائے جائیں۔ جنرل اختر اس وقت انٹیلی جنس سربراہ تھے، لہذا ان کا نام دے دیا گیا ہے۔
اس سوال پر کہ کیا تحقیقات ہونی چاہیے؟ ہارون اختر نے کہا کہ ان کے خاندان کے تمام افراد کے اثاثے اور دیگر مالی معاملات مکمل طور پر دستاویزات پر موجود ہیں۔ اثاثے ظاہر ہیں اور قانون کے مطابق ٹیکس ادا کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ الزام ان پر نہیں بلکہ میرے والد پر لگا ہے، اب وہ کیا قبر سے آ کر حساب دیں گے۔ 32 سال میں کوشش کر کے یہاں تک پہنچے ہیں اور اب ہم پر ایسے الزام لگائے جا رہے ہیں۔ جنرل کا بیٹا اگر کاروبار کرے تو کیا اسے ایسا کرنے کی اجازت نہیں؟ اگر خبر لگانی تھی تو میرے خلاف لگاتے لیکن میرے مرحوم والد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
قانونی کارروائی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں جائزہ لیں گے۔وہ باقاعدہ مشاورت کے بعد قانونی کارروائی کا فیصلہ کریں گے۔
’تحقیقات ہونی چاہیئں‘
اس بارے میں پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے کہا کہ ایسی کوئی بھی چیز جو عوام کے سامنے آئے تو اس کی تحقیقات ہونی چاہیے کہ کسی نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے یا نہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ ایک طویل عرصے کے بعد سامنے آیا ہے اور وہ شخص اس وقت دنیا میں نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنرل اختر عبدالرحمٰن کا نام سامنے آیا ہے تو اس کی مکمل تحقیق ہونی چاہیے تاکہ جس کسی کا بھی نام ہے اگر انہوں نے کچھ نہیں کیا تو انہیں کلیئر ہونا چاہیے تاکہ کوئی ناحق بدنام نہ ہو، اور اگر کسی نے کچھ غلط کیا ہے تو اس کا نام سب کے سامنے آنا چاہیے۔