سابق سینیٹر ، وفاقی وزیر اور ماضی میں متحدہ قومی موومنٹ کے اہم رہنما بابر خان غوری کو کراچی کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے سات روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا ہے۔انہیں امریکہ سے پاکستان واپسی پر پیر کی رات ایئرپورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ بابر غوری کی سات سال بعد وطن واپسی پر مبصرین کا خیال ہے کہ انہیں کوئی اہم ذمے داری سونپی جاسکتی ہے۔
بابر غوری کا نام کراچی کی سیاست میں اہم رہا ہے۔ان کے خلاف پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی کے قوانین، ریاست کے خلاف بغاوت، منی لانڈرنگ اور دیگر سنگین الزامات کے تحت کئی مقدمات درج ہیں۔ لیکن وہ گزشتہ سات برس سے بیرونِ ملک مقیم تھے۔
بابر غوری کے خلاف احتساب عدالت میں کراچی پورٹ ٹرسٹ(کے پی ٹی) میں غیرقانونی بھرتیوں کے الزام کے تحت ریفرنس بھی زیرِ سماعت ہے۔ بابر غوری پر قومی خزانے کو تین ارب روپے کا نقصان پہنچانے کا الزام ہے اور اس مقدمے میں انہیں مفرور قرار دیا جا چکا ہے۔
بابر غوری نے اپنے وکیل کے ذریعے ان مقدمات اور ریفرنس میں سندھ ہائی کورٹ سے حفاظتی ضمانت حاصل کر رکھی ہے۔لیکن پولیس کا کہنا ہے کہ سابق وزیر کو اشتعال انگیز تقاریر کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے جو کراچی کے سائٹ سپر ہائی وے تھانے میں درج ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ بابر غوری انہیں کئی دیگر مقدمات میں بھی مطلوب ہیں اور انہیں سال 2015 کے ایک کیس میں گرفتار کرکے انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش بھی کیا گیا تھا۔
عدالت میں کیس کے تفتیشی افسر نے مؤقف اپنایا کہ ملزم بابر غوری سات سال سے بیرونِ ملک مقیم تھے۔ وطن واپسی پر ان سے مقدمے کی تفتیش کرنی ہے، جس پر عدالت نے بابر غوری کو سات روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا ہے۔
مزید پڑھیے ایم کیو ایم کے دھڑوں کے رابطے، کیا 'پرانی متحدہ' واپس آ رہی ہے؟بابر غوری کی گرفتاری پر ان کی بیٹی علیشا غوری نے توہین عدالت کی درخواست بھی دائر کردی ہے۔
انہوں نے الزام لگایا ہے کہ بابر غوری اپنے خلاف تمام الزامات کا سامنا کرنے کو تیار ہیں۔لیکن واضح عدالتی حکم کے باوجود ان کے والد کو گرفتار کیا گیا جو توہینِ عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کے انتہائی قریب سمجھے جانے والے بابر غوری چھ سال تک پاکستان کے ایوانِ بالا (سینیٹ)کے رکن بھی رہے ہیں۔اس کے علاوہ وہ وفاقی وزیرپورٹ اینڈ شپنگ بھی رہے ہیں۔
اگست 2016 میں بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کی کراچی میں کی گئی تقریر اور اس کے بعد ہونے والی کارروائیوں نے ایم کیو ایم کو تقسیم کردیا تھا۔ پاکستان میں موجود ایم کیو ایم رہنماؤں نے لندن میں موجود قیادت بشمول الطاف حسین سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے قیام کا اعلان کیا تھا۔
اس موقع پر بابر غوری نے مؤقف اپنایا تھا کہ وہ صرف ایک ہی ایم کیو ایم کے ساتھ تھے جو لندن میں ہے اور جس کے قائد الطاف حسین ہیں۔ لیکن بعد ازاں انہوں نے 2017 میں ذاتی وجوہات کی بنا پر جماعت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
اب سات سال بعد بابر غوری کی وطن واپسی پر مختلف تبصرے اور قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں اور ان کی واپسی کو کراچی کی سیاسی تاریخ کے پس منظر میں اہم سمجھا جا رہا ہے۔
'بابر غوری نے کبھی خود کو الطاف حسین کے نظریات سے دور نہیں کیا'
سیاسی مبصر، مصنف اور کراچی کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے ڈاکٹرتوصیف احمد کے خیال میں بابر غوری کی کراچی آمد اہم ہے اور لگتا ہے کہ آنےوالے دنوں یا انتخابات تک شہر کی سیاست میں کوئی بڑی ہلچل نظر آئے۔
ان کے بقول بابر غوری نے آج تک کبھی اعلانیہ طور پر خود کو الطاف حسین کے نظریات سے دور نہیں کیا۔ بلکہ بعض اطلاعات کے مطابق وہ امریکہ میں قیام کے دوران الطاف حسین سے رابطے میں بھی رہے۔
ڈاکٹر توصیف احمد کا کہنا ہے کہ بابر غوری کی آمد کے ساتھ ہی گرفتاری تو یہ ظاہر کرتی ہے کہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ نے فی الحال انہیں کلیئرنس نہیں دی ہے۔ البتہ اس بارے میں کوئی بھی بات وثوق سے نہیں کی جاسکتی۔ کیوں کہ عین ممکن ہے کہ انہیں عدالتوں سے کلیئرنس کے بعد کسی سیاسی جماعت میں شامل کرایا جائے یا پھر گورنر سندھ کے منصب پر فائز کردیا جائے۔
یاد رہے کہ گورنر سندھ کا عہدہ سابق گورنر عمران اسمٰعیل کے مستعفی ہونے کے بعد سے اب تک خالی ہے۔
SEE ALSO: ایم کیو ایم سے وابستہ پاکستانی امریکی خاتون پر ٹارگٹ کلرز کی 'سرپرستی' کا الزامایم کیو ایم کی رہنما نسرین جلیل کی سندھ کی گورنر شپ کے لیے نامزدگی پر ڈاکٹر توصیف احمد کا کہنا تھا کہ ''نسرین جلیل کے نام پرآئی ایس آئی کو اعتراض ہے۔''
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی امور عمومی طور پر اسی انداز میں چلائے جاتے ہیں اور اس پر کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے۔
'بابر غوری کی واپسی مکمل طور پر طے شدہ دکھائی دیتی ہے'
البتہ صحافی مجاہد بریلوی ، ڈاکٹر توصیف کی بات سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں بابر غوری کی واپسی مکمل طور پر طے شدہ اور اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے عین مطابق دکھائی دیتی ہے۔
مجاہد بریلوی کہتے ہیں کہ ان کی آمد سے کراچی کی سیاست میں کوئی فرق پڑتا نظر نہیں آتا۔
"شہرمیں اکثر سیاسی جماعتیں عوامی نبض کو دیکھ کر سیاست کرنے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کے مفاد کو دیکھ کر فیصلے کر رہی ہیں جس سے ان کی مقبولیت دن بدن کم ہوتی چلی جا رہی ہے۔"
ان کے بقول بابر غوری کا کوئی اپنا ووٹ بینک بھی نہیں ہے کہ جس سے ان کی کسی جماعت میں شمولیت سے اس جماعت کو فائدہ ہو سکے۔
مجاہد بریلوی کے مطابق بابر غوری ایک ریئل اسٹیٹ بلڈر کے طور پر جانے جاتے تھے اور عین ممکن ہے کہ ان کی یہی شہرت انہیں دوبارہ کراچی کی سیاست میں فعال کرنے کے کام آئے۔
بابر غوری کی پاکستان آمد پر ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کی رائے جاننے کے لیے وائس آف امریکہ نے دونوں جماعتوں کے رہنماؤں سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے اس پر معاملے پر کوئی ردعمل دینے سے معذرت کرلی۔