|
عبدالخالق کراچی کے علاقے لیاری میں رکشہ چلاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مہنگائی نے جینا دو بھر کر دیا ہے۔ مہنگائی کے باعث وہ افطار پر اپنے بچوں کے لیے مناسب پھل تک نہیں لے جا سکتے۔
اسی طرح کے جذبات کراچی کی ہی رہائشی آمنہ منظور کے ہیں جن کا کہنا ہے کہ ہمیں حکومت سے کوئی خاص توقع نہیں۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ شاید کچھ ایسا کیا جائے کہ مہنگائی کم ہو جائے تاکہ انہیں اپنے بچوں کی کفالت میں مشکل نہ ہو۔
پاکستانی عوام کی انہی خواہشات اور توقعات کے درمیان 'اسٹینڈ بائی معاہدے' کے دوسرے جائزے کے لیے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کا وفد پاکستان میں موجود ہے۔ ایسے میں جہاں عوام ملکی معیشت میں بہتری کی توقعات رکھتے ہیں تو وہیں معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستانی عوام کو ابھی مزید صبر کرنا ہو گا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ معاشی استحکام کے لیے ملک میں سیاسی استحکام اور پالیسیوں کا تسلسل بھی ضروری ہے۔
لیکن عوام کا سوال مختلف ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا کہ اس رقم کے آںے سے پاکستان کے عوام کو مہنگائی سے نجات ملے گی؟ کیا ان 40 فی صد پاکستانیوں کو غربت کے اندھیروں سے نکالا جاسکے گا جن کی روزآنہ کی آمدن 3.65 امریکی ڈالر کے برابر بھی نہیں؟
شہری عمیر خان سے جب یہ پوچھا گیا کہ آئی ایم ایف سے حکومت کو ایک ارب ڈالر سے زائد رقم ملنے جا رہی ہے جس سے حکومت کا کہنا ہے کہ ملک کی معاشی حالت بہتر ہو گی، اس پر آپ کا کیا کہنا ہے؟
Your browser doesn’t support HTML5
ان کا جواب برجستہ تھا کہ ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ آئی ایم ایف حکومت کو کتنے پیسے دے رہا ہے یا نہیں۔ لیکن ہمیں یہ بتا دیں کہ ہمارے نام پر مانگے گئے پیسوں سے ہمارے لیے کیا خرچ کیا گیا۔
یہی سوال جب بعض معاشی ماہرین سے کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ عام آدمی کی مشکلات سے کوئی انکار نہیں اور ملک میں گزشتہ تین برسوں سے مہنگائی بڑھنے کی رفتار 25 فی صد سے بھی بلند رہی ہے۔
شرح سود میں اضافے کی وجہ سے صنعتیں بند ہیں یا پھر بہت کم سطح پر آپریشنل ہیں جس سے بے روزگاری میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور کرونا کے بعد مزید دو کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔
'اصل مسئلہ قرضوں کی واپسی کا ہے'
معاشی تجزیہ کار سلمان نقوی کا کہنا ہے کہ پاکستان کا اس وقت اصل مسئلہ قرضوں کی واپسی کا ہے۔ ملک کو آئندہ تین برسوں میں 75 ارب ڈالرکے لگ بھگ بیرونی قرضہ واپس کرنا ہے اور اس وقت ملکی قومی خزانے میں 13 ارب ڈالر کے مجموعی ذخائر ہیں۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے ک یہ رقم کہاں سے ادا کی جائے گی اور اگر یہ رقم ادا نہ کی جا سکی تو پاکستان دیوالیہ ہو سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت ان قرضوں کی ادائیگی کے عمل کو آسان بنانے یا انہیں رول اوور کرنے کے لیے آئی ایم ایف پروگرام میں جانا چاہتی ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام میں جانے سے دیگر قرض دینے والے مالیاتی اداروں اور ممالک کو یہ اطمینان ہو گا کہ پاکستان میں اصلاحاتی عمل جاری ہے جس سے یہ امید ہے کہ وہ اپنے ذمے ادائیگیاں جلد کرنے کے قابل ہو گا۔
سلمان نقوی کے بقول اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان اس سے قبل آئی ایم ایف کے 23 پروگرام لے چکا ہے اور ان سے معاشی صورتِ حال میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں آ سکی۔
سلمان نقوی اس کا ذمہ دار فنڈ سے زیادہ خود پاکستانی حکام کو قرار دیتے ہیں۔ اُن کے بقول قرض کے حصول کے بعد اکثر پروگرام مکمل نہیں کیے گئے یعنی فنڈ کی جانب سے تجویز کی گئی معاشی اصلاحات کے نفاذ میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے۔
'صورتِ حال اب نہیں تو کبھی نہیں تک جا پہنچی ہے'
سلمان نقوی کا کہنا تھا کہ ایسے میں ایک اچھی بات یہ ہے کہ حکومتی سطح پر اس بات کو شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کی معاشی حالت اب اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ صورتِ حال ابھی یا کبھی نہیں پر جا پہنچی ہے۔
ایسے میں حکومت کو اس بات کا ادراک ہے کہ صورتِ حال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے کچھ اصلاحات اور نقصانات کو کم کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ اسی وجہ سے دیکھا گیا ہے کہ 800 ارب روپے خسارے کی حامل پی آئی اے کی نجکاری کا عمل تیز کیا گیا ہے، ایسے اور بہت سے ادارے ہیں جو قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچانے کا باعث بن رہے ہیں۔
اُن کے بقول ٹیکس جمع کرنے کے ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں اصلاحات کی بات کی جا رہی ہے اور خود نئے وزیر خزانہ نے بھی کہا ہے کہ اب وہ طبقات جو ٹیکس نیٹ میں نہیں انہیں بھی اس میں لانا ہو گا۔
اسی طرح یہ باتیں بھی ہو رہی ہیں کہ اتنی بڑی حکومتی مشینری کے ساتھ بجٹ خسارہ کم نہیں کیا جاسکتا ایسے میں حکومت کا سائز چھوٹا کرنا ضروری ہے۔ لیکن سب سے اہم بات یہی ہے کہ حکومت کو اپنی آمدن بڑھانے پر زیادہ زور دینا ہو گا اور ان طبقات سے ٹیکس اکھٹا کرنا ہو گا جو اب تک ٹیکس نہیں دیتے۔
غیر دستاویزی معیشت
تجزیہ کار امین یوسف کے خیال میں پاکستان کا اصل مسئلہ غیر دستاویزی معیشت کا ہونا ہے۔ صرف زراعت کے شعبے ہی کو لیں جہاں 1500 ارب روپے کی آمدنی رکھنے کے باوجود قومی خزانے میں محض دو ارب ٹیکس جمع ہوتے ہیں۔
اُن کے بقول اسی طرح ملک میں کوئی 40 لاکھ کے قریب ریٹیلرز ہیں لیکن ان میں سے بہت کم ہی پابندی سے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح ملک میں رئیل اسٹیٹ کے اندر انتہائی کم ٹیکس دے کر کروڑوں اربوں روپے سمیٹے جا رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کے نجکاری کے عمل کو تیز کرنے کے ساتھ بجلی اور گیس کے شعبوں میں کئی ہزار ارب روپوں کے نقصان کو کم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ تاکہ سستی بجلی اور گیس میسر آسکے۔
انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ معاشی اصلاحات کے ساتھ سیاسی استحکام کی مستقل موجودگی ہی سے عام لوگوں کو کچھ ریلیف مل سکے گا ورنہ آئی ایم ایف سے ملنے والے قرض سے بھی پاکستان کی مجموعی معاشی حالت اور عام پاکستانی کی حالت نہیں بدل پائے گی۔