امریکہ میں گزشتہ سال مئی میں سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کی ہلاکت میں نامزد پولیس افسر ڈیرک شاوین کے خلاف مقدمے کی کارروائی میں جمعے کے روز ایک سابق فورینزک پیتھالوجسٹ ڈاکٹر لنزے تھامس نے امریکی عدالت میں اپنی گواہی میں کہا کہ جارج فلائیڈ کی ہلاکت پولیس آفیسر کی جانب سے گردن پر مسلسل گھٹنا رکھنے سے ہوئی، جس سے فلائیڈ کو آکسیجن مکمل طور پر نہیں مل رہی تھی۔
2017 میں منی آپلس شہر کے ہینی پن میڈیکل ایگزامنر کے آفس سے ریٹائر ہونے والی لنزے تھامس نے جمعرات کے روز گواہی دینے والے دیگر ماہرین کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کیس کے وکلاء دفاع کے اس نظریے کو رد کیا کہ فلائیڈ کی ہلاکت منشیات کے استعمال اور صحت کے دیگر مسائل کی وجہ سے ہوئی۔
لنزے تھامس نے فلائیڈ کے کیس پر کام نہیں کیا ہے مگر انہوں نے ہینی پین کاؤنٹی کے میڈیکل ایگزامنر اینڈریو بیکر کی اس بات سے اتفاق کیا کہ فلائیڈ کی موت حرکت قلب بند ہونے کے باعث ہوئی جس کی وجہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے ان کی گردن پر مسلسل دباؤ تھی۔
انہوں نے کہا کہ ایسی صورت میں ہلاکت کی ابتدائی وجہ سانس گھٹنا یا کم مقدار میں آکسیجن مہیا ہونا ہے۔
ان کے بقول ’’ایسی صورت میں ہونے والی موت میں دل اور پھیپھڑے کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ قانون نافذ کرنے والوں کی جانب سے حراست میں لینے اور مسلسل جسمانی دباؤ میں رکھنے سے ہوا۔‘‘
لنزے کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر وہ اس نتیجے پر جارج فلائیڈ کی حراست کی ویڈیو دیکھ کر پہنچی تھیں۔ ان کے بقول ’’یہ ایسی جسمانی حالت تھی جس میں وہ ٹھیک سے سانس نہیں لے سکتے تھے۔‘‘
یاد رہے کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں فلائیڈ کی ہلاکت کی وجہ بننے میں دل کے دورے، شریان پھٹنے، کرونا وائرس اور دیگر عوامل کو مسترد کیا گیا تھا۔ لنزے کے مطابق ان کی ہلاکت زیادہ مقدار میں نشہ کرنے کے باعث نہیں ہوئی تھی۔
یاد رہے کہ لنزے تھامس کی گواہی ایسے موقع پر ہوئی جب جمعرات کے روز کئی دیگر طبی ماہرین نے اپنی گواہیوں میں عدالت کو بتایا تھا کہ جارج فلائیڈ کی ہلاکت آکسیجن کی کمی سے ہوئی۔
جمعرات کے روز ایڈورڈ ہائینز جونئیر وی اے ہسپتال اور لیولا یونیورسٹی کے امریکی ریاست الی نوئے میں واقع میڈیکل سکول سے وابستہ پھیپھڑوں اور انتہائی صورت میں طبی امداد کے ماہر ڈاکٹر مارٹن ٹوبن نے عدالت کو بتایا کہ ’’کوئی بھی صحت مند فرد اس صورت حال سے گزرتا جس سے جارج فلائیڈ گزرے تھے، تو وہ بھی مر جاتا۔‘‘
لنزے تھامس کا بھی یہی کہنا تھا کہ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے فلائیڈ کے دماغ کو نقصان پہنچا جس سے ان کا دل کام کرنا بند کر گیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس 25 مئی کو جارج فلائیڈ اس وقت ہلاک ہوئے تھے جب ایک پولیس اہل کار ڈیرک شاوین نے ان کی گردن اپنی ٹانگ سے نو منٹ تک مسلسل دبائے رکھی تھی۔ اس واقعے کی ویڈیو اردگرد کھڑے شہریوں نے بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال دی تھی جس کے بعد امریکہ کے کئی شہروں اور دنیا بھر میں نسل پرستی کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔
ڈیرک شاوین اور ان کے دیگر ساتھیوں کو پولیس کے محکمے نے اس واقعے کے بعد نوکری سے برخاست کر دیا تھا۔ اب ان پر جارج فلائیڈ کے قتل کا الزام ہے جب کہ ان کے ساتھیوں پر معاونت کے الزامات ہیں۔
حال ہی میں مقامی حکومت نے جارج فلائیڈ کے اہلِ خانہ کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے کے تصفیے کے لیے دو کروڑ 70 لاکھ ڈالرز کا ہرجانہ ادا کرنے کی حامی بھری ہے۔