پاکستان کی وفاقی کابینہ نے ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ تجارت معطل کرنے کی منظوری دی ہے جس کے بعد وزارت تجارت نے دو طرفہ تجارت معطل کرنے سے متعلق نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا ہے۔
وزارت تجارت سے جاری نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے ساتھ دو طرفہ تجارت فوری طور پر معطل کی جاتی ہے جو تاحکمِ ثانی معطل رہے گی۔
پاکستان کی جانب سے یہ اقدام بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کے یکطرفہ اقدام کے بعد ردعمل کے طور پر اٹھایا گیا ہے جس کا فیصلہ قومی سلامتی کمیٹی کے خصوصی اجلاس میں کیا گیا تھا۔
وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان کی مشیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے جمعے کو ہونے والے کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ بھارت کے ساتھ تجارت کی معطلی سمیت بھارت کی واہگہ بارڈر کے ذریعے افغانستان کے ساتھ تجارت بھی معطل رہے گی۔
خیال رہے کہ بھارت نے 5 اگست کو صدارتی حکم نامے کے ذریعے متنازع علاقے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کر دیا تھا۔
پاکستان نے بھارت کے اس اقدام کو دو طرفہ معاہدوں کی خلاف ورزی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں سے متصادم قرار دیتے ہوئے مسترد کیا تھا۔
بھارت سے دوطرفہ تجارت کو معطلی کے علاوہ پاکستان نے سفارتی تعلقات کو محدود کرتے ہوئے بھارت کے ہائی کمشنر کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔
تجارت معطلی کے علامتی اثرات مرتب ہوں گے: رکن اقتصادی مشاورتی کونسل
معاشی تجزیہ کار اور حکومت کی اقتصادی مشاورتی کونسل کے رکن ڈاکٹر عابد قیوم سلہری کہتے ہیں کہ اگرچہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ تجارت کا حجم بہت زیادہ نہیں ہے تاہم اس کی معطلی کے علامتی اثرات مرتب ہوں گے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے اقدام کا مقصد بھارت کو نقصان پہنچانا ہے اور تجارت کی معطلی سے بھارت کی تجارت مہنگی ہوگی۔
پاکستان اور بھارت زمینی راستوں یعنی واہگہ بارڈر اور کشمیر کے ذریعے اشیا کی تجارت کرتے ہیں۔ پاکستان کی حکومت کے بھارت کے ساتھ تجارت کی معطلی سے واہگہ کے راستے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ بھی معطل رہے گی۔
بھارت کے پاس تجارت کا متبادل راستہ ہے لیکن وہ مہنگا ہے: ڈاکٹر عابد قیوم
عابد قیوم سلہری کے مطابق اگرچہ بھارت کے پاس ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کی صورت میں افغانستان سے تجارت کا متبادل راستہ موجود ہے لیکن وہ مہنگا بھی ہوگا اور زیادہ وقت طلب بھی۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ تجارت کا حجم 342 ارب روپے ہے جس میں سے پاکستان کی برامدات کا حجم 56 ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔
اس حساب سے بھارت کے ساتھ تجارت میں پاکستان خسارے میں ہے یعنی تجارتی توازن بھارت کے حق میں ہے۔
پاکستان میں صنعت کاروں اور تاجروں کی وفاقی تنظیم ’فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری' نے حکومت کی جانب سے بھارت کے ساتھ تجارت کی معطلی کے اقدام کی حمایت کی ہے۔
پاکستان، بھارت سے پان، چھالیہ، لوہا اور اسٹیل سمیت دیگر اشیا درآمد کرتا ہے
تنظیم کے نائب صدر اعجاز عباسی کہتے ہیں کہ دو طرفہ تجارت میں پاکستان کی برآمدات کا حجم بہت کم ہے جو کہ محض 56 ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔
ان کے مطابق حکومت کے اس اقدام سے مقامی صنعت کو فروغ ملے گا اور خام مال سستا ہوگا۔
پاکستان سے بھارت جانے والی اشیا میں زیادہ حصہ تازہ پھلوں، سیمنٹ، پیٹرول کی مصنوعات، معدنیات اور چمڑے کا ہے جب کہ پاکستان میں بھارت سے درآمد کی جانے والی اشیا میں سبزیاں، کیمیکل، پان، چھالیہ، لوہا، اسٹیل وغیرہ شامل ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2018 میں بھارت کو پاکستان کی برآمدات کا محض دو فیصد جب کہ اسی عرصے میں بھارت کی پاکستان کو برآمدات کا حجم محض 3 فیصد رہا۔
تاہم بعض معاشی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کی معطلی سے غیر قانونی تجارت بھی بڑھ سکتی ہے۔