ایف-16 جنگی طیارہ پاکستان کی فضائی افواج کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکہ سے ملنے والے ایف-16 طیاروں کے پاکستان میں اب تک 10 حادثات ہو چکے ہیں جن میں سے کچھ میں پائلٹس زندہ بچنے میں کامیاب ہو گئے اور بعض میں ناکام رہے۔
پاکستان کو امریکہ کی طرف سے کُل کتنے ایف-16 طیارے فراہم کیے گئے؟ اس بارے میں پاکستان کی فضائیہ یا کسی اور ادارے نے باضابطہ اعداد و شمار جاری نہیں کیے ہیں۔ البتہ یہ معلومات موجود ہیں کہ اب تک 10 ایف-16 طیارے مختلف حادثات کا شکار ہو چکے ہیں۔
ایف-16 کے حادثات
پاکستان میں ایف-16 طیارے کا پہلا حادثہ 18 دسمبر 1986 کو ہوا تھا۔ سرگودھا کے قریب ہونے والے اس حادثے میں طیارے میں سوار دونوں پائلٹ محفوظ رہے۔
دوسرا حادثہ 29 اپریل 1987 کو ہوا جب غلطی سے جہاز پر فائر کیا گیا۔ اس حادثے میں بھی پائلٹ محفوظ رہا۔
چار ستمبر 1989 کو تیسرا حادثہ ہوا جب تکنیکی وجوہات کی وجہ سے ایک ایف-16 طیارے کے آلات نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ جہاز سرگودھا سے کچھ کلو میٹر پہلے گر کر تباہ ہوا اور حادثے میں پائلٹ بھی ہلاک ہو گیا۔
کامرہ کے قریب 16 جون 1991 کو تربیتی پرواز کے دوران طیارے کا انجن فیل ہونے کے باعث اسکوارڈن لیڈر سید حسن رضا کو ایجیکٹ کرنا پڑا اور جہاز تباہ ہو گیا۔
ستائیس اکتوبر 1991 کو اٹک کے قریب ایک اور ایف-16 طیارہ گر کر تباہ ہوا جس میں اسکوارڈن لیڈر ندیم انجم محفوظ رہے۔ اطلاعات کے مطابق اس جہاز کا بھی انجن فیل ہوا تھا۔
انجن فیل ہونے کی وجہ یہ تھی کہ معمول کی مرمت کے دوران جہاز کے انجن میں اصل پرزہ نصب نہیں کیا جا سکا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان پر پابندیوں کی وجہ سے جہاز کے پرزوں کی فراہمی معطل کر دی گئی تھی۔
نومبر 1993 میں ایف-16 بی بلاک 15 طیارہ پرندہ ٹکرانے کے باعث گر کر تباہ ہوا۔ اس حادثے میں بھی دونوں پائلٹس جہاز سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔
سترہ مارچ 1994 کو سرگودھا کے قریب ایف سولہ اے بلاک 15 طیارہ تکنیکی وجوہات کی بنا پر گر کر تباہ ہوا جس میں پائلٹ ہلاک ہو گیا۔
جولائی 2009 میں سرگودھا کے قریب نور پور کے علاقے میں تربیتی مشن پر موجود طیارہ گر کر تباہ ہوا جس میں اسکوارڈن لیڈر غلام نبی ہلاک ہوئے۔
اسلام آباد میں آج 11 مارچ 2020 کو شکرپڑیاں کے قریب ہونے والے حادثے میں ونگ کمانڈر نعمان اکرم ہلاک ہوئے ہیں۔ اس حادثے کی وجوہات اب تک معلوم نہیں ہو سکی ہیں۔ تاہم یہ طیارہ 23 مارچ کو ہونے والی پریڈ کے لیے مشقوں میں مصروف تھا۔
ایف-16 کا استعمال
امریکہ سے حاصل ہونے والے ایف-16 طیارے پاکستان کو سال 1981 میں پہلی بار فراہم کیے گئے جو پاکستان اور افغان سرحد پر مہاجرین کے کیمپس کی حفاظت کے لیے استعمال کیے گئے تھے۔
پاکستان نے یہ طیارے امریکہ سے افغان جہاد کے لیے حاصل کیے تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ طیارے پاکستان کی فضائیہ میں اہمیت اختیار کرتے گئے۔
پاکستان ان جہازوں کو بھارت کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر بھی استعمال کرتا رہا ہے اور 1999 میں کارگل کی جنگ کے دوران بھی پاکستان اور بھارت کی سرحد پر ایف-16 جہازوں کی پروازیں جاری رہیں۔
نائین الیون کے بعد پاکستان کو ایف-16 بلاک 52 سی اور ڈی فراہم کیے گئے۔ ان جہازوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران قبائلی علاقوں میں دشمن کے ٹھکانوں پر بمباری کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔
پاکستان نے ایف-16 طیاروں پر انحصار کم کرنے کے لیے چین کے ساتھ مل کر جے ایف 17 تھنڈر طیارے بھی بنائے ہیں۔ لیکن پاکستان کی فضائی طاقت کا زیادہ انحصار اب بھی ایف-16 طیاروں پر ہے۔
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
پاکستان کی فضائیہ کے ایک سابق افسر کیپٹن حالی کے مطابق پاکستان کی فضائی قوت میں ایف-16 کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ پاکستان کے نکتہ نظر سے یہ ایک بہترین طیارہ ہے جو بہت محفوظ شمار کیا جاتا ہے۔ لیکن تکنیکی وجوہات، موسم کی خرابی اور پرندہ ٹکرانے کی وجوہات ایسی ہیں جن کی وجہ سے کوئی بھی طیارہ حادثے کا شکار ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت 70 سے زائد ایف-16 طیارے پاکستان کے زیرِ استعمال ہیں۔ البتہ پاکستان کی فضائیہ نے ایف-16 طیاروں کی موجودہ تعداد سے متعلق کوئی باضابطہ معلومات جاری نہیں کی ہیں۔