فیس بک اور کینیڈین حکومت کے درمیان چھ ماہ سے زیادہ مدت تک جاری رہنے والی جنگ میں، اب تک سب سے زیادہ نقصان بظاہر کینیڈا کے چھوٹے مقامی خبر رساں اداروں کو ہوا ہے۔
پچھلے سال کینیڈا کی حکومت کی جانب سے اپنا آن لائن نیوز ایکٹ متعارف کرانے کا مقصد یہ تھا کہ بڑی سوشل میڈیا کمپنیاں کینیڈا کی نیوز آرگنائزیشنز کو اس مواد کا معاوضہ ادا کریں جو دنیا کے بڑے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر پوسٹ اور شیئر کیا جاتا ہے۔
گوگل نے بالآخر نومبر میں ایک معاہدہ کر لیا جس کے تحت وہ کینیڈا کی نیوز فراہم کرنے والی کمپنیوں میں سالانہ سات کروڑ 36 لاکھ ڈالر تقسیم کرتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس فیس بک کی مالک کمپنی میٹا نے اپنے پلیٹ فارمز پر تمام خبروں کی شیئرنگ روک دی اور کہا کہ وہ کسی ادارے کو معاوضہ نہیں دے گی۔
کینیڈا کی میڈیا کمپنیوں کو اگست 2023 میں شروع ہونے والے اس بائیکاٹ سے شدید نقصان پہنچنے کے بارے میں بہت کم شواہد دستیاب ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ فیس بک نے اپنے پیچز پر ٹریفک یا صارفین میں کمی کے نقصان کا جائزہ نہیں لیا۔
لیکن لوگوں کو اپنی ویب سائٹس کی طرف راغب کرنے کے لیے فیس بک پر انحصار کرنے والے چھوٹے مقامی خبر رساں ادارے کہتے ہیں کہ وہ مشکل میں ہیں۔
SEE ALSO: نوجوانوں کی ذہنی صحت متاثر کرنے کا الزام؛ 33 امریکی ریاستوں کا 'میٹا' پر مقدمہمشرقی صوبے نیو فاؤنڈ لینڈ میں ایک چھوٹے سے مقامی نیوز آؤٹ لیٹ اور پبلشر، ریک ہاؤس پریس کے شریک بانی رینے جے رائے کہتے ہیں کہ میرے خیال میں یہ پابندی کافی عرصے تک چلے گی اور اس کے نتیجے میں کینیڈا کے میڈیا کو بہت نقصان پہنچا ہے ۔ میرے خیال میں انہوں نے چھوٹے میڈیا کو تباہ کر دیا ہے۔
رائے نے وائس آف امریکہ کے ساتھ اپنے انٹرویو میں کہا کہ اس کے نتیجے میں ہمارا کاروبار چھ ماہ سے زیادہ نہیں چل سکے گا۔ کینیڈا کی حکومت اس کی ذمہ دار ہے۔
ٹورنٹو میٹروپولیٹن یونیورسٹی کے اسکول آف جرنلزم کے لیے تیار کردہ ایک حالیہ مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ 2023 کے پہلے 11 مہینوں کے دوران ملک بھر میں 36 مقامی خبررساں ادارے بند ہوئے۔ ان میں سے 29 کمیونٹی کے اخبارات تھے اور سات نجی ملکیت والے ریڈیو اسٹیشن تھے۔
اس ریسرچ کے لیے کام کرنے ولے لوکل نیوز ریسرچ پروجیکٹ کے ریسرچر اپریل لِنڈگرین نے کینیڈین پریس نیوز ایجنسی کو بتایا کہ 2008 سے اب تک کینیڈا بھر میں 345 کمیونٹیز میں 516 مقامی ریڈیو، ٹی وی، پرنٹ اور آن لائن نیوز آپریشنز بند ہو چکے ہیں۔
SEE ALSO: امریکی سپریم کورٹ سوشل میڈیا کمپنیوں کو مواد کا ذمہ دار کیوں نہیں ٹھہراتی؟جب کہ اس مدت کے دوران، 152 کمیونٹیز میں 215 نئے مقامی نیوز چینلز شروع ہوئے۔ ان میں سے صرف ایک 2023 میں قائم ہوا۔
فیس بک کی جانب سے میڈیا کے لیے لگائی جانے والی پابندی کے فوری اور شدید اثرات اس وقت سامنے آئے جب کینیڈا کے کچھ علاقوں کے جنگلات میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔ متاثرہ علاقوں میں، جو فیس بک اور سوشل میڈیا کے ذریعے خبریں حاصل کرتے تھے، لوگوں کو تازہ ترین صورت حال کے بارے معلومات حاصل کرنے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔
ریک ہاؤس پبلیشر کے ایڈٹر رائے کہتے ہیں کہ ایک چھوٹی کمیونٹی میں لوگوں کے پاس مقامی معلومات حاصل کرنے کے ذرائع بہت کم ہوتے ہیں۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ لوگ اپنے علاقے میں نیٹ ورک پر جاتے تھے۔ پابندی لگنے کے بعد ہماری آن لائن موجودگی 60 فی صد تک کم ہو گئی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارے ہاں اخبارات پڑھنے میں بھی کمی آئی ہے۔
فیس بک کے مالک ادارے میٹا کی ترجمان لیزا لیونچر نے وائس آف امریکہ کو یکم اگست کو شائع ہونے والے ایک بیان کا حوالہ دیا جس میں اس پابندی کے نفاذ کا اعلان کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ قانون سازی اس غلط بنیاد پر مبنی ہے کہ میٹا ہمارے پلیٹ فارمز پر شیئر کی گئی خبروں کے مواد سے غیر منصفانہ طور پر فائدہ اٹھاتا ہے، جب کہ سچ اس کے برعکس ہے۔ کیونکہ ہمارے پلیٹ فارم استعمال کرنے والے لوگ ہمارے پاس خبروں کے لیے نہیں آتے ہیں۔
(جے ہیسلر، وی او اے نیوز)