بلاگ
قاضی نعیم سندھ کے ایک ٹی وی چینل سے وابستہ رہے ہیں اور آجکل فل برائٹ اسکالرشپ پر امریکہ میں مقیم ہیں۔ وائس آف امریکہ کی اردو سروس میں انٹرنشپ کرنا چاہتے تھے، لیکن واشنگٹن میں رہائشی انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے جوائن نہ کرسکے، تاہم انہوں نے بلا شبہ کوئی 20 فون کالزکی ہونگی، اپنے ایک ساتھی فل برائٹ اسکالر مرتضی ڈار کے لیے کہ وائس آف امریکہ میں ان کے لیے انٹرنشپ کا بندوبست کیا جائے۔ مرتضی ڈار واشنگٹن پہنچ گئے، لیکن اس سے پہلے انہوں نے ایک اور فل برائٹ اسکالر کی زبردست سفارش کرڈالی کہ انہیں بھی وائس آف امریکہ میں انٹرنشپ دی جائے۔ قصہ مختصر، دونوں نوجوان اسکالرز نے وائس آف امریکہ میں انٹرنشپ کے پہلے ہی دن اپنی قابلیت، خلوص، اور زیادہ سے زیادہ سیکھنے کی خواہش سے اردو سروس کے ساتھیوں کو اپنا گرویدہ بنالیا۔
پیر اپریل 2، ان دونوں کی انٹرنشپ کا آخری دن ہے۔ سندھ کے صحافی قاضی نعیم نے انتہائی نیک نیتی سے کشمیری النسل لاہوری، ایک اردو ٹی وی صحافی مرتضی ڈار کو نئے افق دریافت کرنے میں مدد دی، اور مرتضی ڈار نے جس صحافی کی سو فی صد درست سفارش کی، وہ تھیں بلوچستان کے شہر کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی فل برائٹ اسکالر، شیرین گل بلوچ۔۔
پاکستان کے حالات بلاشبہ خراب ہیں، خصوصا بلوچستان کے، مگر یہ تینوں نوجوان اسکالرز قوم سازی کے اس عمل کا حصہ ہیں جوکئی رکاوٹوں کے باوجود جاری وساری ہے ۔ تین مختلف مادری زبان بولنے والے ان نوجوانوں کا اپنے وطن سے ہزاروں میل دور ایک دوسرے کے ساتھ یہ طرز عمل، انکی قابلیت، اور کچھ کرنے کی خواہش، اور وطن واپسی کا مصمم ارادہ پاکستان کے لیے اچھی سوچ رکھنے والوں کے لیے باعث اطمینان ہے ۔
اور میں، بہت پہلے، کراچی میں پیدا ہوا تھا۔