بلوچستان سے لاپتا افراد کی بازیابی اور بالاچ بلوچ کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد شروع ہونے والا لانگ مارچ ڈیرہ اسماعیل خان پہنچ گیا ہے۔ مارچ کے شرکا کا کہنا ہے کہ اُن کی منزل اسلام آباد ہے جہاں پہنچ کر وہ پہلے سے جاری احتجاجی دھرنے میں شریک ہوں گے اور آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔
شرکا نے 23 نومبر سے چھ دسمبر تک بلوچستان کے ضلع تربت میں دھرنا دیا گیا جس کے بعد مطالبات کی منظوری کے لیے چھ دسمبر سے اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کیا گیا۔
لانگ مارچ کے منتظمین اور بلوچ یک جہتی کمیٹی نے الزام عائد کیا ہے کہ پولیس نے خضدار، قلات، مستونگ، کوئٹہ اور ٖڈیرہ غازی خان میں لانگ مارچ کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔
مارچ کی قیادت کرنے والی ماہ رنگ بلوچ سمجھتی ہیں کہ اُن کا یہ لانگ مارچ اسلام آباد پہنچنے سے قبل ہی اِس لیے کامیاب ہے کیوں کہ اِس مارچ میں بلوچستان کے ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ مارچ کے راستے میں آنے والی ہر تحصیل اور ہر ضلع کے لوگوں نے اُن کا استقبال کیا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ماورائے عدالت ہلاکتوں کو بند اور لاپتا افراد کو رہا کیا جائے۔ اُن کا لانگ مارچ ایک تحریک ہے جس میں میں لاپتا افراد کی رجسٹریشن بھی کی جا رہی ہے۔
ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے اُن کے پرامن لانگ مارچ کو روکنا ریاستی جبر ہے۔
یاد رہے کہ بلوچستان کے علاقے تربت میں سی ٹی ڈی کے ساتھ مبینہ مقابلے میں چار افراد کی ہلاکت پر لواحقین سراپا احتجاج ہیں۔ لواحقین کا دعویٰ ہے کہ مارے جانے والے افراد کو جبری طور پر لاپتا کیا گیا تھا۔
اس واقعے پر بلوچستان پولیس نے بالاچ بلوچ اور دیگر تین افراد کے قتل کا مقدمہ بالاچ کے والد مولا بخش کی مدعیت میں ایس ایچ او سی ٹی ڈی اور دیگر اہلکاروں کے خلاف درج کیا ہے۔ مقدمے میں قتل اور اقدامِ قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ سی ٹی ڈی پولیس نے گزشتہ ماہ مقابلے میں چار دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ مقابلے میں مارے جانے والے افراد کی شناخت بالاچ مولا بخش، سیف اللہ، ودود اور شکور کے ناموں سے ہوئی تھی۔
محکمۂ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ بالاچ بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کا رکن تھا۔
سی ٹی ڈی کے مطابق بالاچ نے دورانِ تفتیش اعتراف کیا کہ وہ ٹارگٹ کلنگ اور آئی ای ڈی (بم) نصب کر چکا ہے۔ وہ بارودی مواد اپنے دیگر ساتھیوں کے پاس لے کر جا رہا تھا جنہوں نے موٹر سائیکل آئی ای ڈی پہلے سے تیار کر رکھی تھی اور تربت شہر میں دہشت گردی کی کارروائی کرنا چاہتے تھے۔
بیان میں مزید دعویٰ کیا گیا تھا کہ بالاچ کے انکشاف پر سی ٹی ڈی نے چھاپہ مار ٹیم تشکیل دی۔ وقوعے پر پہنچتے ہی دہشت گردوں نے فائرنگ شروع کر دی۔ بالاچ دہشت گردوں کی فائرنگ سے مارا گیا۔
بلوچ یکجہتی مارچ میں شامل محمد ذیشان بتاتے ہیں کہ اُن کے والد کو پنجگور سے جبری طور پر لاپتا کیا گیا تھا۔ اِن کو مارچ میں شرکت کی وجہ سے سہراب میں نامعلوم افراد کی جانب سے مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ تشدد کے باعث وہ زخمی ہو گئے اور وہ چھ دنوں تک علاج کی غرض سے اسپتال میں داخل رہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ طبیعت بہتر ہونے پر اُنہوں نے دوبارہ مارچ میں شمولیت اختیار کی ہے۔
بلوچ یکجہتی مارچ کے شرکا کا کہنا ہے کہ اُن کا پرامن مارچ تربت سے کوئٹہ، کوئٹہ سے لاہور براستہ ڈیرہ غازی خان جانا تھا، لیکن ڈیرہ غازی خان میں انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے لگائی گئی رکاوٹوں کے باعث اُنہوں نے اپنے مارچ کا راستہ ڈی جی خان سے ڈیرہ اسماعیل خان براستہ تونسہ رکھا ہے۔
ڈپٹی کمشنر ڈیرہ غازی خان شاہد زمان بتاتے ہیں کہ مقامی انتظامیہ کی جانب سے مارچ کے شرکا کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ امن ومان کی صورتِ حال کے باعث ضلع بھر میں دفعہ 144 نافذ ہے جس کی خلاف ورزی بلوچ یکجہتی مارچ کے شرکا کی جانب سے کی گئی مگر اِس کے باوجود انتظامیہ اور پولیس نے اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔
ڈی سی، ڈی جی خان شاہد زمان کے مطابق مقامی پولیس نے مارچ کے شرکا میں سے چند افراد کو حراست میں لیا گیا تھا جنہیں کچھ ہی دیر بعد چھوڑ دیا گیا تھا۔
ماہ رنگ بلوچ بتاتی ہیں کہ جب سے ان کا مارچ بلوچستان کے ضلع تربت سے شروع ہوا ہے۔ حکومت نے مختلف ہتھکنڈوں سے اُن کے پرامن مارچ کو روکنے کی کوشش کی ہے۔ کبھی شرکا کے اہلِ خانہ کو ہراساں کیا گیا تو کبھی ٹرانسپورٹرز کو پریشان کیا گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
واضح رہے کہ بلوچستان ہائی کورٹ نے تربت میں بالاچ بلوچ کے مبینہ طور پر حراست میں قتل سے متعلق فیصلہ سناتے ہوئے سی ٹی ڈی مکران کے چار اہلکاروں کو معطل کرنے کا حکم دیا ہے۔
وائس آف امریکہ نے بلوچستان کے نگراں وزیرِ اطلاعات جان اچکزئی سے رابطہ کیا تو ان کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان مین کہا گیا ہے کہ حکومت مارچ کے شرکا کے بیشتر مطالبات تسلیم کر چکے ہیں۔ بلوچستان حکومت نے واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔
دوسری جانب ایمنسٹی انٹرنیشنل جنوبی ایشیا کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حکومت بلوچ یکجہتی مارچ کے شرکا کے خلاف کارروائیاں بند کرے اور حراست میں لیے گئے افراد کو رہا کرے۔
ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اُنہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ وہ پاکستان کی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ بلوچوں کے خلاف درج کیے گئے تمام مقدمات کو غیر مشروط طور پر ختم کرے۔ ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کے بارے میں غیر جانب دار تحقیقات کی جائیں۔
ماہ رنگ بلوچ کون ہیں؟
ماہ رنگ بلوچ طب کی طالبہ ہیں جنہوں نے بولان میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔ آج کل وہ سرجری کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے مطابق اُن کے والد عبدالغفار لانگو کو مبینہ طور پر ریاستی اداروں نے 2009 میں اُٹھایا تھا جس کے دو سال بعد اُن کے والد کی تشدد شدہ لاش ملی تھی۔
یاد رہے کہ اِس سے قبل بھی صوبہ بلوچستان سے لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ سے کراچی، کراچی سے اسلام آباد اور کوئٹہ سے اسلام آباد لانگ مارچ کیے جاتے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ ریاستی ادارے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔