’لاپتا افراد کے بارے میں غلط بیانی کی گئی‘؛ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے فوجی ترجمان کا بیان مستر کر دیا

فائل فوٹو

  • وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق فوجی ترجمان نے حالیہ پریس کانفرنس میں لاپتا افراد کے بارے میں غلط بیانی کی ہے۔
  • چیئرمین نصر اللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ یہ ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ڈی جی آئی آیس پی آر نے لاپتا افراد کے حوالے سے جو الزامات لگائے ہیں ان کا ثبوت کے ساتھ جواب دیا جائے۔
  • ان کے بقول لاپتا افراد بازیابی کے بعد کب اور کس طرح کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیم کا حصہ بنے اس کے حوالے سے علم نہیں ہے۔

بلوچستان میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز‘ نے گمشدہ افراد سے متعلق فوج کا بیان مسترد کر دیا ہے۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ نے کہا ہے کہ پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹننٹ جنرل احمد شریف نے حالیہ پریس کانفرنس میں لاپتا افراد کے بارے میں غلط بیانی کی ہے۔

کوئٹہ پریس کلب کے باہر لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے لگائے گئے علامتی احتجاجی کیمپ میں پیر کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے نصر اللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ڈی جی آئی آیس پی آر نے لاپتا افراد کے حوالے سے جو الزامات لگائے ہیں ان کا ثبوت کے ساتھ جواب دیا جائے۔

یاد رہے کہ حالیہ دنوں فوج کے ترجمان نے ایک پریس کانفرنس کے دوران لاپتا افراد کا ذکر کیا تھا۔

آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر میجر جنرل احمد شریف نے اپنی ایک پریس کانفرنس کے دوران لاپتا افراد کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ لاپتا افراد کا معاملہ ایک اہم اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ اتنا آسان نہیں جتنا اسے پیش کیا گیا ہے۔ لاپتا افراد کا مسئلہ صرف پاکستان تک نہیں۔ پوری دنیا میں یہ مسئلہ موجود ہے۔

ان کے بقول بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں جو لوگ مارے گئے ہیں ان کا نام لاپتا افراد کی فہرست میں بھی شامل تھا۔

لاپتا افراد کے حوالے سے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے فوج کے ترجمان نے کہا تھا کہ مارچ 2011 سے ایک آزاد کمیشن بنایا گیا۔ مارچ 2011 سے اب تک مسنگ پرسنز کے کمیشن کے پاس 10 ہزار 218 کیسز رجسٹرڈ ہوئے جن میں سے 80 فی صد یعنی سات ہزار کیسز کو کمیشن نے حل کر لیا ہے۔

ان کے بقول دنیا بھر میں مسنگ پرسنز کا مسئلہ ہے حتیٰ کی ترقی یافتہ ممالک میں لاپتا ہونے والے افراد کی تعداد لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

بلوچ مسنگ پرسنز مارچ کے شرکا کی گرفتاری کے خلاف احتجاج

اس سے قبل رواں ماہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے 2023 میں پاکستان میں انسانی حقوق سے متعلق رپورٹ جاری کی تھی جس میں گزشتہ سال کو انسانی حقوق کے حوالے سے بھیانک سال قرار دیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ لاپتا افراد کے کمیشن کے مطابق 2023 کے اختتام تک 2299 کیسز بدستور حل طلب ہیں۔ اس سال 4413 واقعات میں لاپتا افراد گھروں کو لوٹ کر آ چکے تھے۔ 994 کیسز میں متاثرین حراستی مراکز میں پائے گئے جب کہ 261 کیسز میں متاثرین کی لاشیں ملیں۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے پیش کیے جانے والے اعداد و شمار میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بلوچستان سے اب تک لاپتا ہونے والے افراد کی کل تعداد سات ہزار کے قریب ہے جب کہ 2019 سے اب تک لگ بھگ 640 افراد بازیاب ہو چکے ہیں۔

SEE ALSO: سال 2023 پاکستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے بہت بھیانک رہا: ہیومن رائٹس کمیشن

چیئرمین وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نصر اللہ بلوچ نے پریس کانفرنس میں مزید کہا کہ فوج کے ترجمان نے پریس بریفنگ میں کہا کہ مچھ میں فورسز کے ساتھ مقابلے میں مارے جانے والے ودود ساتکزئی اور گوادر میں مارے جانے والے کریم جان کے نام لاپتا افراد کے فہرست میں شامل تھے۔

انہوں نے فوجی ترجمان کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ودود ساتکزئی 12 اگست 2022 میں جبری گمشدگی کا شکار ہوئے تھے جب کہ نو فروری 2023 میں وہ بازیاب ہو گئے تھے۔

ان کے بقول ان کی بازیابی کی تصدیق وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور ان کے اہلِ خانہ نے کی تھی جو ریکارڈ پر موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ ودود ساتکزئی کے بازیابی کے بعد ان کے اہلِ خانہ سمیت کسی بھی تنظیم نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ جبری لاپتا ہیں جب کہ نہ ہی کسی تنظیم کی لاپتا افراد کی فہرست میں ان کا نام شامل نہیں تھا۔

نصر اللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ ودود ساتکزئی اپنے بازیابی کے بعد کب اور کس طرح کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیم کا حصہ بنے اس کے حوالے سے علم نہیں ہے۔

واضح رہے کہ فوج کے ترجمان نے یہ بھی کہا تھا کہ کچھ لوگ ملک سے باہر بیٹھے ہوئے ہیں ان کا نام بھی مسنگ پرسنز کی فہرست میں شامل ہے۔

SEE ALSO: لاپتا بلوچ طلبہ کیس: 'وزیرِ اعظم اور وزرا جواب نہیں دے سکتے تو انہیں عہدوں سے ہٹانا چاہیے'

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ایسے شخص کا نام لاپتا افراد کی فہرست میں شامل نہیں جو ملک سے باہر بیٹھا ہو یا وہ مسلح تنظیموں کا حصہ بن کر ریاست کے خلاف لڑ رہا ہو۔

واضح رہے کہ ماضی میں لواحقین سیکیورٹی فورسز پر لاپتا افراد کو جعلی مقابلوں میں ہلاک کرنے کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔

گزشتہ برس دسمبر میں بلوچستان کے علاقے تربت میں محکمۂ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) سے مبینہ مقابلے میں چار افراد کی ہلاکت ہوئی تھی جس پر لواحقین نے الزام لگایا تھا کہ مارے جانے والے افراد کو جبری طور پر لاپتا کیا گیا تھا۔

ان افراد میں ایک نوجوان بالاچ بلوچ تھے جن کی ہلاکت کے بعد تربت سے کوئٹہ اور اسلام آباد تک ایک تحریک چلائی گئی تھی جب کہ اسلام آباد میں سرگرم بلوچ رہنما ماہ رنگ بلوچ کی سربراہی میں دھرنا دیا گیا تھا۔

SEE ALSO: نو مئی کے ملزمان کو سزا دینا ہو گی، انتشاری ٹولے سے بات نہیں ہو سکتی: ترجمان فوج

ماضی میں بھی حکام جبری گمشدگیوں کے حوالے سے یہ مؤقف اختیار کرتے رہے ہیں کہ اکثر لاپتا افراد بیرونِ ملک فرار ہو چکے ہیں یا ان میں سے بعض نے کالعدم عسکری تنظیموں میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ اس لیے ان کے لواحقین کے سیکیورٹی فورسز پرالزامات بے بنیاد ہیں۔

پریس کانفرنس نصر اللہ بلوچ نے مزید کہا کہ ہم ملک کے طاقت ور اداروں کے سربراہوں اور صوبائی و وفاقی حکومت کو کہنا چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں طاقت کے استعمال، جبری گمشدگیوں، لاپتا افراد کی عدم بازیابی اور جعلی مقابلوں میں لاپتا افراد کی اموات کی وجہ سے بلوچستان کے عوام میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔