تربت میں لاپتا افراد کی بازیابی کےلیے دھرنا؛ 'پیاروں کی گمشدگی کے بعد گھروں میں بیٹھنا گوارا نہیں'

فائل فوٹو

پاکستان کے صوبۂ بلوچستان میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے ایک نیا احتجاجی دھرنا شروع ہوگیا ہے۔

یہ دھرنا منگل کو مکران ڈویژن کے ضلع کیچ کے علاقے تربت میں دیا گیا ہے جس میں تربت سے گزشتہ دو برسوں کے دوران مبینہ طور پر لاپتا کیے گئے 16 افراد کے اہلِ خانہ شریک ہیں۔

متاثرہ خاندانوں کے ہمراہ سیاسی اور سماجی تنظیمیں بھی دھرنے میں شامل ہیں جب کہ تربت میں شدید گرمی کے باوجود مردوں کے ساتھ خواتین اور بچے بھی دھرنے میں موجود ہیں۔

گوادر سے شروع ہونے والی عوامی مہم "حق دو تحریک" نے بھی لاپتا افراد کے اہلِ خانہ کے دھرنے کی حمایت کرتے ہوئے اس میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔

"حق دو تحریک" کے ضلع کیچ کے رہنما محمد یعقوب جسکانی نے وائس آف امریکہ سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ تربت شہر اور اس کے نواحی علاقوں سے گزشتہ دو برسوں میں تقریباً 16 نوجوان لاپتا ہوئے ہیں۔

دھرنے کے باعث قومی شاہراہ پر ٹریفک کی آمد و رفت معطل ہے۔

ان کے بقول، لاپتا افراد کے اہلِ خانہ نے کچھ روز قبل کیچ کے ڈپٹی کمشنر سے ملاقات کی تھی۔ ڈپٹی کمشنر نے تمام گمشدہ افراد کی بازیابی کی یقین دہانی بھی کرائی تھی۔ مگر ایسا نہیں ہوا تو اہلِ خانہ دھرنا دینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

محمد یعقوب جسکانی نے بتایا کہ تربت سے لاپتا ہونے والے افراد میں شفیق، محمد نعیم، اکبر اسلم، یاسر شبیر، محمد عارف، وسیم، امام، عاصم، ناصر، دل وش، فیروز، کریم جان و دیگر افراد شامل ہیں۔

دھرنے میں موجود کئی افراد اپنے پیاروں کی جدائی کا غم سہہ رہے ہیں۔ انہی میں سے ایک خاتون ماہ گنج اسلم بھی ہیں جو اپنے بھائی کی بازیابی کی آس لیے احتجاج میں شریک ہیں۔

ماہ گنج الزام لگاتی ہیں کہ ان کے بھائی اکبر اسلم کو رواں سال مارچ میں خفیہ اداروں کے اہلکار اپنے ساتھ لے گئے تھے جس کے بعد سے اب تک ان کی کوئی خیر خبر نہیں مل سکی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کے دوران ماہ گنج اسلم نے بتایا کہ ان کے بھائی کالج کے طالب علم ہیں۔ وہ صبح کالج جاتے تھے اور شام کو اپنے گھر کے باہر آلو کے چپس فروخت کرکے گزربسر کرتے تھے۔

لاپتا افراد کے اہلِ خانہ اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے پوسٹر اٹھائے ہوئے ہیں۔

"اکبر اسلم کو تربت میں ایک دکان سے اٹھایا گیا جس کے بعد میں ڈپٹی کمشنر کیچ کے پاس بھی گئی اور ان کی گمشدگی سے متعلق ایف آئی بھی درج کرائی۔ مگر اکبر کی بازیابی کے لیے اب تک کچھ نہیں کیا گیا۔"

ماہ گنج نے مزید کہا کہ "ہمارے پیاروں کا کچھ پتا نہیں کہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں۔ اس لیے ہمیں گھروں میں اے سی اور پنکھوں کے نیچے بیٹھنا گوارا نہیں۔ ہم یہاں شدید گرمی میں دھرنا دے رہے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے پیاروں کو دو دن کے اندر بازیاب نہیں کرایا جاتا تو وہ کوئٹہ - تربت قومی شاہراہ پر دھرنا دے کر اسے غیر معینہ مدت تک کے لیے بلاک کریں گے۔

دوسری جانب تربت میں قومی شاہراہ پر جاری اس دھرنے کے باعث دونوں جانب کی رابطہ سڑکیں بند ہیں جس سے مسافروں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

بلوچستان میں جبری گمشدگی کا سنگین مسئلہ گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہے جس پر انسانی حقوق کی تنظیمیں تشویش کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔ جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج اور مظاہرے بھی عام ہیں۔

بلوچستان میں جبری گمشدگی کے مسئلے پر اکثر احتجاجی مظاہرے ہوتے رہتے ہیں۔

موجودہ حکومت اور اس سے گزشتہ حکومتیں بھی لاپتا افراد کا مسئلہ حل کرنے کے لیے کوششوں اور اقدامات کے دعوے کرتی رہی ہیں لیکن لوگوں کی گمشدگی کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔

رواں ماہ پاکستان کے وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناءاللہ نے نجی ٹی وی کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ لاپتا افراد کے لواحقین ثبوت دیں تو وہ ان کی بازیابی کے لیے تیار ہیں۔

دوسری جانب وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ریاض پیرزادہ نے گزشتہ روز 'ڈان نیوز' کو دیے گئے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ کچھ لاپتا افراد پاکستان میں گرفتار ہونے والے مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن جادھو یا ہمسایہ ممالک سے رابطوں میں تھے۔


ریاض پیرزادہ کے مطابق کچھ لاپتا افراد نے ہمسایہ ممالک میں بھی پناہ لے رکھی ہے۔

اس معاملے پر بلوچستان حکومت کا کہنا ہے کہ اس کی کوششوں سے اب تک 400 سے زائد لاپتا افراد بازیاب ہو کر اپنے گھروں کو واپس لوٹ چکے ہیں جب کہ وہ دیگر افراد کی بازیابی کے لیے بھی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔