بھارت کی حکومت کی جانب سے منظور کیے جانے والے متنازع زرعی قوانین کے خلاف جاری احتجاج کے دوران ایک 75 سالہ سکھ کسان نے دارالحکومت نئی دہلی اور ریاست اتر پردیش (یو پی) کے درمیان غازی پور سرحد پر خود کشی کر لی۔
باپو کے نام سے مشہور خود کشی کرنے والے کسان کا نام کشمیر سنگھ تھا اور وہ اتر پردیش کے ضلع رام پور کا رہائشی تھا۔
رپورٹس کے مطابق ہفتے کی صبح اس کی لاش ایک ٹوائلٹ میں رسی سے لٹکی ہوئی ملی۔ جس کے قریب سے ایک نوٹ بھی ملا۔ جس میں اس نے مذکورہ زرعی قوانین کے خلاف اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے لکھا ہے کہ وہ حکومت اور کسان تنظیموں کے درمیان ہونے والی بات چیت کی ناکامی سے بہت مایوس ہے۔
اس نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ متنازع قوانین واپس لے۔
کسانوں کی اتر پردیش کی ایک تنظیم ‘بھارتیہ کسان یونین’ کے مطابق کشمیر سنگھ نے اپنے نوٹ میں موت کے لیے حکومت کو ذمہ دار ٹھیرایا ہے اور کہا ہے کہ اس کے اوپر اس کے اہل خانہ کا یا کسی کا دباؤ نہیں تھا۔
اس نوٹ میں مبینہ طور پر یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ وہ کب تک اس سردی میں یہاں بیٹھے رہیں گے۔ یہ حکومت ان کی بات نہیں سن رہی۔ لہٰذا وہ اپنی جان دے رہے ہیں۔ تاکہ مسئلے کا کوئی حل نکلے۔
خود کشی کے اس نوٹ کو، جو کہ گورمکھی زبان میں لکھا ہوا ہے، پولیس نے قبضے میں لے لیا ہے اور کسان کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دی گئی ہے۔
احتجاج میں شریک افراد نے بتایا کہ اسٹیج سے کشمیر سنگھ کی خود کشی کا اعلان کیا گیا تھا۔
بھارتیہ کسان یونین کے ترجمان دھرمیندر ملک نے بتایا کہ کشمیر سنگھ، اس کا بیٹا اور پوتا بھی کئی دن سے احتجاج میں شریک تھے۔
دھرمیندر کے بقول وہ لوگ احتجاج کرنے والے کسانوں کے لیے لنگر کے انتظام میں لگے ہوئے تھے۔
کسانوں کے احتجاج کے دوران خود کشی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔
اس سے قبل 16 دسمبر کو ریاست ہریانہ کے کرنال علاقے کے رہائشی 65 سالہ مذہبی رہنما بابا رام سنگھ نے خود کو گولی مار کر خودکشی کی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
بابا رام سنگھ نے بھی نوٹ چھوڑا تھا۔ جس میں انہوں نے متنازع زرعی قوانین کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ حکومت اور کسانوں کے درمیان ہونے والی بات چیت کی ناکامی سے مایوس ہو کر اپنی جان دے رہے ہیں۔
اب تک سنگھو اور غازی پور سرحد پر احتجاج کے دوران 46 کسانوں کی موت ہو چکی ہے۔ جن میں سے دو نے خودکشی کی اور باقی کسان مختلف وجوہات سے ہلاک ہوئے۔ احتجاج میں شریک کسی کسان کی سردی لگنے سے موت ہوئی تو کسی کی کسی عارضے میں مبتلا ہونے کی وجہ سے۔
بھارتیہ کسان یونین کے اعلان کے مطابق احتجاج کے دوران فوت ہونے یا خودکشی کرنے والے کسانوں کو شہید کا درجہ دیا جائے گا۔
متنازع زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کا احتجاج 38 روز سے جاری ہے۔ حکومت اور کسانوں کے درمیان بات چیت کے سات ادوار ہو چکے ہیں۔
دونوں فریقین کے درمیان آخری بات چیت 30 دسمبر کو ہوئی تھی۔ جس میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔ تاہم قوانین واپس لینے کے مطالبے پر تعطل برقرار ہے۔
اگلے دور کی بات چیت چار جنوری کو ہوگی۔
Your browser doesn’t support HTML5
کسانوں نے اعلان کیا ہے کہ اگر اس بات چیت کا بھی کوئی نیتجہ نہیں نکلا تو وہ رواں ماہ 6 جنوری کو ہریانہ کے ‘کے ایم پی ایکسپریس’ پر ٹریکٹر مارچ کریں گے۔
انہوں نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ مطالبات تسلیم نہ کیے جانے کی صورت میں وہ 26 جنوری کو یعنی بھارت کے ‘یومِ جمہوریہ’ پر دارالحکومت نئی دہلی میں ٹرالی ریلی نکالیں گے۔
یاد رہے کہ اس روز مسلح افواج انڈیا گیٹ سے لال قلعے تک عسکری طاقت کا مظاہرہ کرتی ہے اور مختلف ریاستوں کی جانب سے ترقیاتی سرگرمیوں کی تمثیلی ریلی نکالی جاتی ہے۔
کسانوں کے ایک رہنما درشن پال نے اعلان کیا ہے کہ اس ریلی کے علاوہ 23 جنوری کو گورنر ہاؤس کے سامنے مظاہرہ بھی کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ پانچ جنوری کو سپریم کورٹ میں زرعی قوانین کے معاملے پر سماعت بھی ہونے والی ہے۔