وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے امور خارجہ، طارق فاطمی نے کہا ہے کہ پاکستان امریکہ اور ایران کے درمیان طے پانے والے معاہدے کا ’خیر مقدم کرتا ہے‘، جو، بقول اُن کے، ’پاکستان کے لیے تیل سے مالا مال اپنے ہمسایہ ملک کے ساتھ تعاون کی نئی راہیں کھولنے کا باعث بنے گا‘۔
اُنھوں نے یہ بات ایک ہفتے کے دورہ امریکہ کے اختتام پر جمعے کو واشنگٹن میں اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
اُنھوں نے کہا کہ ایسے میں جب ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری معاہدے کے بارے میں بحث جاری ہے، پاکستان جنوبی اور وسطی ایشیا کے خطے میں ’ابھرتی ہوئی اسٹریٹیجک طاقت کے طور‘ پر کوئی کردار ادا کرنے کے کسی موقع کے بارے میں سوچ رہا ہے۔
’وائس آف امریکہ‘ کے نمائندے، امان اظہر نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ معاون خصوصی نے ایران اور پاکستان کے درمیان ایک عشرہ پرانے گیس پائپ لائن منصوبے کے لیے ’پاکستان کی از سر نو پیدا ہونے والی توقعات‘ کا خصوصی طور پر ذکر کیا، جسے پاکستان توانائی کی اپنی ضروریات کے لیے ’انتہائی اہم سمجھتا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ایران پر بین الاقوامی پابندیوں نے پائپ لائن کے منصوبے پر عمل درآمد کی پاکستان کی راہیں محدود کر دیں تھیں۔
سعودی عرب سے متعلق سوال پر،آیا سعودی پاک تعلقات میں قربت کے ہوئے پاکستان پابندیاں اٹھائے جانے کے بعد والے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات میں کس طرح توازن پیدا کرے گا۔۔ سفیر طارق فاطمی نے بہت ہی محتاط انداز سے جواب دیا۔
پریس کانفرنس کے دوران، امور خارجہ کے مشیر نے افغان صدر اشرف غنی کی حکومت اور طالبان کے نمائندوں کو مذاکراتی میز پر لانے سے متعلق پاکستان کی کوششوں کا تفصیل سے ذکر کیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان صدر اشرف غنی کی حکومت کی جانب سے افغانستان کو مستحکم کرنے کی کوششوں میں معاونت کی کاوشوں سے وابستہ ہے۔
انہوں نے افغانستان اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان پاکستان کے دارالحکومت کے قریب ایک چھوٹے پہاڑی تفریحی مقام پر پہلے عام رابطے میں پاکستان کے کردار کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس اجلاس میں امریکہ اور چین کے عہدے داروں نے بھی شرکت کی تھی۔
طارق فاطمی نے کہا کہ پاکستان ان عسکریت پسند دھڑوں کی بیخ کنی کے لیے افغانستان کے ساتھ مل کر کام کرے گا، جنہوں نے مذاکرات کی میز پر آنے سے انکار کیا ہے۔
اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ واشنگٹن کے کچھ حلقے غلط طور پر یہ فرض کر رہے ہیں کہ افغان طالبان کے ایک بڑے متحارب دھڑے ، حقانی نیٹ ورک کے نمائندوں نے پاکستان کی ثالثی میں افغانستان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں حصہ نہیں لیا تھا۔
اب جب کہ پاکستان کی حکومت حقانی نیٹ ورک پر اپنے اثر و رسوخ پر زور دے رہی ہے، ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان ابھرتے ہوئے اس اسٹریٹیجک کھیل میں اپنی اہمیت کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہے۔ اور اب جب کہ ایران پہلے سے زیادہ طاقتور علاقائی کردار کے طور پر سامنے آتا دکھائی دے رہا ہے، ممکن ہے کہ پاکستان بھی خود ایک ایسی صورتحال سے دوچار ہو جس میں اسے سعودی عرب اور اس کے حریفوں کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم کرنے؛ خطے میں اور پاکستان کے لیے ایک بااثر کردار ادا کرنے کی ضرورت محسوس ہو۔
طارق فاطمی نے زور دے کر کہا کہ پاکستان کی جانب سے بھارت اور افغانستان سمیت اپنے تمام ہمسایوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا ہدف ان کوششوں کو اجاگر کرتا ہے، ’جو اسلام آباد علاقائی استحکام اور امن کے لیے کر رہا ہے‘۔
اپنے دورے کے دوران، معاون خصوصی نے امریکی ایوان نمائندگان کے اراکین، سینیٹرز اور ریاستی اور دفاع کی شعبوں سے متعلق اعلیٰ امریکی عہدے داروں سے ملاقاتیں کیں۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکی ایوانِ نمائندگان اور امریکی اہل کاروں کے ساتھ ان کی ملاقاتیں ’گرمجوش اور دوستانہ تھیں‘ اور باہمی دلچسپی کے تمام شعبوں میں دو طرفہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی ’پاکستانی خواہشات کے عین مطابق تھیں‘۔