پاکستان کے وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ریاستِ پاکستان اور حکومت انتہا پسندی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے اتنی تیار نہیں جتنا انہیں ہونا چاہیے۔ ان کے اس بیان کے بعد ملک کے سیاسی اور سماجی حلقوں میں بحث شروع ہو گئی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ انتہا پسندی اور شدت پسندی کے رجحان کو ختم کرنے کے لیے ریاست کو واضح پالیسی اختیار کرنی ہو گی۔ کیوں کہ ایک تاثر موجود ہے کہ بعض مذہبی گروہ حکومت کی پالیسیوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔
اسلام آباد میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز میں جمعرات کو گفتگو کرتے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ "ہمیں بھارت، امریکہ اور یورپ سے نہیں، بلکہ اپنے آپ سے خطرہ ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں سیاسی اور خارجی وجوہات کی وجہ سے کیے گئے فیصلوں سے پاکستان میں انتہا پسندی کو فروغ ملا، مگر اس کے تدارک کے لیے کیے جانے والے اقدامات ناکافی ہیں۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے معاملے میں دیکھا ہے کہ کس طرح ریاست کو پیچھے ہٹنا پڑا ہے۔
وزیرِ اطلاعات نے کہا کہ انتہا پسندی کسی بھی معاشرے اور اس کے نظام کو تباہ کر سکتی ہے۔ پاکستان کو بھی اسی خطرے کا سامنا ہے۔
ان کے بقول پاکستان میں انتہا پسندی کی وجہ مدارس ہرگز نہیں، بلکہ اسکول اور کالجز ہیں۔ جہاں ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت 1980 اور 1990 کی دہائی میں ایسے اساتذہ بھرتی کیے گئے جو انتہا پسندی کی تعلیم دے رہے ہیں۔
انتہا پسندی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس رجحان کو نہ روکا گیا تو کوئی بھی اختلافی نکتۂ نظر کفر قرار دے دیا جائے گا۔ اس کے جہنم جانے کی بات کی جائے گی۔ ایسے ماحول میں صحت مند مکالمے کی کوئی گنجائش نہیں رہے گی۔
فواد چوہدری نے واضح کیا کہ کسی انتہا پسند گروہ کو اجازت نہیں دی جا سکتی ہے کہ وہ بندوق کے زور پر حکومت پر دباؤ ڈال کر اپنا مؤقف تسلیم کرائے۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر ریاست کی عمل داری کمزور ہو جائے گی، تو پر تشدد گروہ مضبوط ہو سکتے ہیں اور یہ انتہا پسند نکتۂ نظر کے علاوہ کسی دوسرے کے نکتۂ نظر کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے ریاست کو سختی سے قانون اور اپنی عمل داری کا نفاذ کرنا ہو گا۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حال ہی میں حکومت بعض مذہبی اور شدت پسندوں گروہوں کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے اور بعض معاملات پر پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے۔
حکومت کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے بعد تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے اپنے لانگ مارچ اور دھرنے کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جب کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ افغانستان میں طالبان کی حکومت کی ثالثی میں جاری مذاکرات کے بعد فریقین کے درمیان ایک ماہ کی عارضی جنگ بندی جاری ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کو مذہبی اور انتہا پسند گروہوں کے بارے میں واضح پالیسی اختیار کرنی ہو گی۔ یہ گروہ تشدد اور طاقت کے زور پر ریاست کی پالیسیوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ملک میں انتہا پسندی کے رجحان کو تقویت ملے گی۔
صحافی اور تجزیہ کار صفی اللہ گل کے مطابق ماضی میں بعض مقاصد کے لیے ریاست نے انتہا پسند گروہوں کی سرگرمیوں سے صرف نظر کیا البتہ بیرونی دباؤ کی وجہ سے یہ پالیسی تبدیل کرنی پڑی۔
ان کے بقول خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی علاقوں میں ماضی میں عسکریت پسند گروہ وجود میں آئے۔ اب تبدیل ہونے والے ماحول میں ان گروہوں سے نمٹنا ریاست کے لیے بھی ایک چیلنج بن گیا ہے۔
ان کے بقول ایک طرف ماضی میں ریاست نے بعض شدت پسند گروہوں کے خلاف سخت اقدامات کیے لیکن دوسری جانب جب انتہا پسند گروہوں کے ساتھ حکام بات چیت کرتے ہیں۔ تو عام لوگ حکومت کی پالیسی کے بارے میں شش و پنج کا شکار ہو جاتے ہیں۔
دوسری جانب کراچی یونیورسٹی شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر نعیم احمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ انتہا پسندی کے بارے میں فواد چوہدری کے بیان سے اتفاق کرتے ہیں، البتہ وہ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ اسکول اور کالج شدت پسندی اور انتہا پسندی کے رویوں کو فروغ دے رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ چار دہائیوں کے دوران پاکستان میں بعض مدارس بھی ایسے رویوں کی ترویج کرتے رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
پروفیسر ڈاکٹر نعیم احمد کا مزید کہنا ہے کہ انتہا پسندی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے حکومت اور ریاستی اداروں کو یکساں مؤقف اختیار کرنا ہو گا۔ ایک تاثر یہ ہے کہ انتہا پسند گروہوں سے نمٹنے کے حوالے سے طریقۂ کار کے بارے میں شاید اختلاف ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک تاثر یہ بھی موجود ہے کہ بعض سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے ٹی ایل پی کے بارے میں بعض سرکاری حلقے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ جب ایک سیاسی یا مذہبی گروہ کو حمایت کا تاثر ملے گا تو اس کی وجہ سے بعض دوسرے عناصر بھی انتہا پسندی کی طرف مائل ہو سکتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر نعیم احمد کا کہنا ہے کہ انتہا پسند گروہ پاکستان کے لیے عالمی سطح پر خفت کا باعث بن رہے ہیں۔ حکومت کو ایک واضح پالیسی اختیار کرنی ہو گی۔